کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

212

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ کو آج 4996 دن مکمل ہوگئے۔

اس موقع پر چمن سے سیاسی کارکن محمد رمضان اچکزئی، خیر محمد کاکڑ اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض کی اگر تاریخ پڑھی جائے تو اس میں اس بات کا ذکر ضرور ملتا ہے کہ اپنے مقبوضہ علاقوں میں کس طرح اپنے قبضے کو دوام بخشنے کی مختلف حربے استعمال کرتا ہے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے ان پر تشدد کرنے،عزت نفس کو مجروح کرنے و دیگر اقدام اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ وطن میں جاری قابض ریاست کی ظالمانہ کاروائیوں میں روز بروز شدت پیدا ہو رہی ہے، زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد سے لیکر ایک عام محنت کش بلوچ پاکستانی فورسز کے ظلم و ستم کے شکنجے میں ہے پاکستانی ریاست کی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہر گزرتے دن کے ساتھ فرزندوں کے عزت نفس کو مجروح کرنے اور ان کے ساتھ ذلت آمیز رویہ رکھنے کو فرض منصبی سمجھتے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین کی جدجہد میں جوق در جوق شمولیت نے بھی غیر فطری ریاست کے پاوں تلے زمین نکال دی ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی میڈیا دانش سے عاری دانشوروں کے ذریعے یہ پروپگنڈہ کرتا چلا آرہا تا کہ بلوچ سماج میں عورتوں کو چاردیواری تک محدود کرکے ان پر ظلم جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں مگر موجودہ حالات میں بلوچ خواتین کی قابل دید کردار خاص طور پر انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف عالمی اداروں کی توجہ مبزول کرانے میں اہم کردار نے ریاست کے تمام تر جھوٹے پروپیگنڈوں کو غلط ثابت کرکے اسے حواس باخطہ کردیا ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ عالمی طاقتوں نے نہ صرف پاکستان کی تمام کرتوتوں سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ اسے بلوچ جیسے محکوم قوم کی نسل کشی کا لائسنس دے کر قتل عام کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔