بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کیخلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کو کو 4981 دن مکمل ہوگئے، سبی سے رحمت اللہ سیلاچی، نور شاہ خجک و دیگر کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں کوئٹہ سے فورسز کے ہاتھوں حراست بعد جبری لاپتہ عبدالقدوس بنگلزئی کی اہلیہ بھی شریک ہوئی جنہوں نے لاپتہ شوہر کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوان کارکنوں نے قربانیاں اپنی بقا کے لئے دی، تعلیمی اداروں سے لیکر گاؤں کی گلیوں تک ہر طرف فوج چوکیوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ایسی صورتحال ایک نئے بحث کو جنم دیتی ہے، کیوں خواتین اور بزرگ کارکنان کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے کل تک شاید ان سوالوں کا جواب دینا مشکل تھا لیکن آج کی صورتحال میں جہاں ریاست کے چہرے سے نام نہاد شرافت کا نقاب ہٹ چکا ہے نام نہاد جمہوریت کا بوسیدہ دیوار جن کی آڑ میں مذہبی جنونیت کو فوج طاقت کے ذریعے عالمی امن کے راہوں کو معدوم کیا جاتا رہا ہے وہ بوسیدہ دیوار فکری اور نظریاتی کارکنوں کی نظریاتی بالیدگی اور مستقبل مزاجی کے سبب گر چکی ہے پاکستان پوری دنیا کی نظروں میں انسانی بنیادی حقوق کے اعتبار سے اپنی ریاستی وقار کھو چکی ہے
دریں اثناء بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے جبری گمشدگی کے شکار عبدالقدوس بنگلزئی کی اہلیہ بھی اس وقت لاپتہ افراد کے کیمپ میں شریک تھیں جہاں انہوں نے حکومت و انسانی حقوق کے اداروں سے جبری لاپتہ شوہر کو منظرے عام پر لانے میں مدد کرنے کی درخواست کی ہے-
لاپتہ عبدالقدوس بنگلزئی کی اہلیہ کے مطابق انکے شوہر کو گذشتہ سال 16 دسمبر کو کوئٹہ سردار منیر جان روڈ کوئٹہ سے سی ٹی ڈی نے گرفتاری بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا،انکے اہلیہ نے کہا شوہر کے جبری گمشدگی کے باعث شدید اذیت کا شکار ہیں-
عبدالقدوس بنگلزئی کے اہلیہ کا کہنا تھا انکے شوہر اپنے والدہ اور گھر والوں کا واحد سہارہ ہے اسے کس قانون اور کس جرم کے تحت لاپتہ کیا گیا ہے اگر اس پر کوئی الزام ہے تو عدالتوں میں پیش کرکے انصاف کا موقع دیا جائے-
عبدالقدوس بنگلزئی کے اہلیہ نے حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں سے لاپتہ شوہر کو منظر عام پر لانے اور باحفاظت بازیابی میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے –