بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے رشید بلوچ کے والدہ کی درد و تکلیف میں اس دنیا سے رخصت کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ مائیں اپنے پیاروں کی راہیں تکتے ہوئے جان سے ہاتھ دو رہی ہیں جبکہ ریاست کی کان میں جون تک نہیں رینگتی۔ اپنے ہی ملک میں کوئی ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دوہرا معیار نہیں رکھتا لیکن پاکستان کے اندر بلوچوں کے درد و تکلیف پر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ رشید بلوچ کے والدہ کی موت کا ذمہ دار ریاست کے وہ ادارے ہیں جنہوں نے ان کے بچے کو گزشتہ پانچ سال سے لاپتہ کیا ہوا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ لاپتہ رشید کی والدہ وہ پہلی خاتون نہیں جو اپنے بچے کی جدائی کا درد برداشت نہ کرتے ہوئے وفات پاگئی ہیں بلکہ بلوچستان کے ہر علاقے میں ایسے دردناک واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ریاست میں یہ زمہ داری ریاست کی ہوتی ہے کہ وہ جبری طور پر لاپتہ اپنے شہریوں کو بازیاب کرائے اور انہیں ریاست کے اندر موجود تمام حقوق دیے جائیں لیکن بلوچستان کے معاملے میں بدقسمتی سے ریاست ہی شہریوں کی جبری گمشدگی کا ذمہ دار بنی ہوئی ہے اور بلوچ ماؤں سے ان کے بچوں کو نگل رہی ہے۔آج بلوچستان کا کوئی بھی ایسا علاقہ موجود نہیں جہاں سے بےگناہ افراد کو لاپتہ کرکے زندانوں میں قید نہ کیا گیا ہو۔ لواحقین مسلسل یہ اصرار کرتے آ رہے ہیں کہ اگر ہمارے پیاروں میں سے کسی نے کوئی غیرقانونی سرگرمی انجام دی ہے تو انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے مگر بدقسمتی سے ریاست نے بلوچستان کے معاملے میں قانون اور آئین کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں رشید اور آصف سمیت بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کے لوگوں کو سیکورٹی فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اقتدار کے اصول کی چکر میں سیاسی جماعتیں انسانی حقوق کے سنگین مسئلے کو بھول چکے ہیں جو کسی بھی وقت بڑے المیہ کا سبب بن سکتی ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے لیکن اسے فوجی مسئلے میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے حالات دن بدن بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اقدامات اٹھائیں۔