پنجاب میں بلوچ طلباء پر تواتر سے حملے
ٹی بی پی اداریہ
ستائیس فروری کو قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پشتون کونسل سے وابستہ سینکڑوں طلباء یونیورسٹی میں زیر تعلیم بلوچ طلباء پر حملہ آور ہوئے، جس میں دس سے زائد بلوچ طلباء زخمی ہوئے، جن میں کئی طلباء کے سر پر سنگین چوٹیں لگیں، جو کئی دن ہسپتال میں زیر علاج رہے ہیں۔
اسلام آباد میں بلوچ طلباء پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ پنجاب کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء پر عرصہ دراز سے تواتر سے حملے ہورہے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی انتظامیہ و پولیس نے بلوچ طلباء پر حملہ روکنے سے گریز کیا، اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے سیکیورٹی افسر کرنل عبید کی جانب سے بلوچ طلباء پر حملہ کرنے کے لئے دوسرے طلباء تنظیموں کو اکسانے سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ طلباء پر حملوں میں مبینہ طور پر ریاستی ادارے ملوث ہیں اور پنجاب کے یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔
دریں اثناء پشتون قیادت نے بلوچ طلباء پر حملے کی مذمت کرکے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے اور زخمی طلباء کی عیادت کرکے پیغام دیا کہ بلوچ و پشتون قوم کو اِن حالات میں صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور بلوچ طلباء پر حملے کو طلباء کی لڑائی کے بجائے قومی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہیئے۔
یونیورسٹیوں میں طلباء تنظیموں کے درمیان لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن بلوچ اور پشتوں طلباء کو دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور طلباء کی لڑائی کو بلوچ اور پشتوں تصادم کی شکل دینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ بلوچستان اور پختونخوا میں بلوچ و پشتون قومیں ریاستی جبر کا شکار ہیں انہیں یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ریاستی جبر کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کے لئے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف بلوچ قوم پرست حلقوں کی جانب سے یہ الزام عائد کی جارہی ہے کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء پر حملے، انکا حراساں کرنا اور جبری گمشدگیوں کے پیچھے مبینہ طور پر وہ خفیہ قوتیں متحرک ہیں، جو بلوچ طلباء کے سیاسی کردار سے نالاں ہیں، اس لیئے وہ طلباء کو مختلف مسائل میں الجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
پنجاب میں بلوچ طلباء پر حملے، بلوچ اور پنجاب کے بیچ حائل خلیج کو مزید وسیع کرنے کا باعث بن سکتے ہیں لہٰذا حکومت کو یہ بلوچ طلباء کی تحفظ یقینی بنانا چاہیئے۔