نوآبادیاتی معاشرہ ۔ ایس کے بلوچ

361

نوآبادیاتی معاشرہ

تحرير: ایس کے بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مسلط کردہ نظامِ حکومت اکثر حالات، سیاست، جنگ، ادب، تاریخ اور شناخت کو اپنی طرف کھینچ کر ایک الگ ساخت کو تشکیل دیتی ہے، جو “نیا زمانہ” یا ” نوآبادیاتی معاشرے” کی نام سے جانی جاتی ہے(یاد رکھیں کہ یہ زمانہ اکثر اندرونی طبقوں کی مدد سے لیکر بیرونی جابر قوت کے ظلم و جبر سے ظہور پذیر ہوتی ہے).نیا کا مطلب: ایک ایسا چیز جو پہلے ظہور پزیر نہیں ہوئی تھی، ابھی زیر نظر یا زیر بحث لا چکی ہے؛ زمانہ ہماری گزرے ہوئے لمحے، حال کی کشمکش اور مستقبل کی امیدوں سے وابستہ رکھتی ہے۔ زمانہ انسان کی تجربات و مشاہدات، علم و دانش، ادب و تاریخ اور نئی سوچ سے تبدیل ہوتی ہے۔ عام طور پر زمانہ انسانی فطرت کو اکثر اثر انداز کرتی ہے، وہ اس لئے کہ یہ زمانہ انسانی تخلیقات و ثقافت کے باجود کائناتی اشیاء سے لیکر قدرتی طوفانوں سے بھی تبدیل ہوتی ہے، اسی طرح بدلتی رہی ہے۔

لہٰذا دنیا سائنس کی بدولت خود کو تباہ کر رہی ہے، ثقافت و تہذیب اور آپس کی ملنے جلنے کی عادتیں روز بروز بگڑتی صورتحال پیدا کر رہے ہیں، یہ سب نئے زمانے سے وابستہ رکھتی ہیں، یہ نیا زمانہ تشدد، ظلم و جبر، غیر انسانی سلوک اور جیل و زندان کا وہ زمانہ ہوتی ہے، جو مختلف شکلیں اختیار کرلیتی ہے۔اس دور حکومت کو ملٹری اور پولیس سسٹم سے برقرار رکھتے ہیں، صوبائی اسمبلی ہو یا نیشنل اسمبلی یہ قومی غدار و چوروں کی پناہگاہ اور فوجیوں کی چھاونی بن جاتا ہے، جہاں صرف اور صرف ظالم حکمرانوں کی باتیں چلتی ہیں، غریب و کمزور اور حق مانگنے والوں کے گلے کاٹ دیئے جاتے ہیں، ایک جج بیٹھ کر سارے وکیلوں کی رائے کو ظاہری طور پر کان لگا کر سنتی ہیں لیکن بعد وہی کرتا ہے جو فرمان جاری کرتے ہیں، ایسے اسمبلیوں اور آئین کے دعویداروں کے پاس ہمیشہ مظلوم قوم کو پانی کی جگہ خون، علم کی جگہ مذہب، فلسفہ کی جگہ جھوٹا پروپیگینڈا، تاریخ کی جگہ عشق و عاشقی کے افسانے اور تحقیق و تمدن کی جگہ من گھڑت کہانیاں ملتی ہیں، جو ہر مظلوم قوم کو طاقت کی ڈر سے قبول کرنا پڑ رہا ہے۔

اگر عوام باقی اداروں سے تنگ آکر روڈوں پر نکلتے ہیں تو وہاں پولیس واحد ادارہ ہوگی جسے نئی شاخیں بنواکر ایک نئی تسلسل کو جاری کر سکتی ہیں، جس طرح آج سی ٹی ڈی ایک مثال ہے جو لاپتہ افراد اور عام لوگوں کو فیک انکاؤنٹر میں میں مارکر دہشتگردی کا ٹھپہ لگاتی ہے۔

یہ حکومت طبقے و نئے طرم خانوں، دماغ و جسموں کو اپنی طرف متوجہ کرکے ایک گیارہ ہزار سالہ پرانی قوم کو مسخ کرنا چاہ رہی ہے، اسکول و کالجوں کی جگہ چھاؤنیاں یا مسجدیں قائم کر دی گئی، کچھ لیبریریوں کے دروازوں پر تالے لگا کر وہاں جانے کی پابندی لگادی گئی اور کچھ میں جھوٹے لوگوں کی جھوٹی کتابوں کو رکھ کر طلبا و طالبات کو پڑھنے کو کہہ رہی ہے، یہ سب اس ” نیا زمانہ” کی پیدوار ہیں۔

اگر آپ عوامی مزاحمت کی طرف توجہ مرکوز کر کے خود کو زہنی حوالے سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ عوامی مزاحمت کو آئیجیک کرنے کی مختلف پروپگنڈے ہو رہے ہیں، آپ “سانحہ کھیتران” کی مسئلہ کو لیں یا جماعت اسلامی کی اچانک دبنگ انٹری کو۔ یا سی ٹی ڈی کی غیر قانونی مقدمات کی طرف نظر ثانی کرلیں یہ وہ پروپگنڈے ہیں جن کے خلاف ہمیشہ کیلئے تیار ہونا چاہیے کیونکہ یہ زمانہ انسانیت کے خلاف ایک تشدد ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں