مولانا اپنے کارکنوں کو کیسے ساتھ رکھتا ہے؟
تحریر : مولوی اسماعیل حسنی
دی بلوچستان پوسٹ
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مولانا فضل الرحمن کا اپنے 35 سالہ سیاسی سفر میں کوئی بھی مثبت کارکردگی نہیں لیکن اس کے باوجود ان کے کارکن ایسے چمٹے ہوئے ہیں کہ حالات کے درست پہلو پر آزادانہ طریقہ سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ وجہ کیا ہے؟ آپ نے کبھی غور کیا ہے اس پر؟ نہیں تو آج ہی سے اس پہلو پر غور و فکر کر لیجیے تو ان سے بہت کچھ سمجھنے اور سیکھنے میں آپ کو نہایت آسانی ہوگی۔
میں چونکہ مولانا کی پارٹی کا نہ صرف رکن رہا ہوں بلکہ ذیلی طلبہ تنظیم میں صوبائی لیول تک عہدیدار اور مرکزی فورمز تک ذمہ دار بھی رہ چکا ہوں، اس وقت بھی میری رکنیت ان کی پارٹی میں ہے اور راشد سومرو کے کہنے پر ہی میں نے رکنیت فارم پُر کی تھی۔ فرض بنتا ہے کہ اصل حالات بغیر کسی لگی لپٹی کے آپ سے شیئر کروں۔ سو اس حوالے سے میرا مختصر تبصرہ تو یہی ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن اپنے کارکنوں کے سوچنے کی صلاحیتیں منظم پروپیگنڈہ کے ذریعے ہمیشہ مفلوج رکھ کر بولنے کا استعداد سلب کروا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کارکن دوسروں کو گالی دیتے ہوئے بھی نہیں شرماتے جب کہ خود اتنے تنگ ظرف واقع ہوتے ہیں کہ چند تلخ حقائق بھی نہیں سن پاتے۔ اب وہ پروپیگنڈہ کیا ہے جس کے ذریعے ان کی سوچ و فکر کی استعداد کو مفلوج کردیا جاتا ہے اور وہ منصوبہ بندی کس نوعیت کا ہوتا ہے؟ آئیے آج ایک واقعہ کے تناظر میں کھل کر اس پہلو پر بحث کرتے ہیں جس سے پوری پارٹی کی نفسیاتی مزاج کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
یہ بحث زیرِ نظر تصویر کی روشنی میں ملاحظہ کریں!
یہ سن 2012ء کی بات ہے، جب ہم رحیم یارخان میں پڑھتے تھے، مولانا کے کٹر شیدائی ہونے کے ناطے کسی بھی جلسہ میں شرکت کو نماز کی طرح فرض خیال کرتے تھے، اندازہ کیجیے کہ اگر ہم اس طرز پر کام نہ کرتے ہوتے تو حالات کا یوں ہی ادراک ہمارے لیے اس حد تک ہوتا کہ ورکرز کی نفسیات پر بھی بحث کرتے؟ یقینا نہیں بلکہ ہرگز یہ ممکن نہ تھا۔ سو یہ جو کچھ لکھ رہے ہیں، یہ سب ان ہی حالات و واقعات میں پیش آنے والے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ چنانچہ ان ایام میں سکھر میں ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کے عنوان سے ایک جلسہ منعقد ہوا۔ چونکہ جمعیۃ میں آپ نے دیکھا ہوگا ایک طریقہ یہ ہے کہ انتخابی جلسوں میں بھی مدارس کے طلبہ شریک ہوتے ہیں اور وہ بھی انتخابی حلقہ سے باہر کے، یعنی جلسہ کراچی میں ہو تو بلوچستان اور کے پی کے کے طلبہ کے ذریعے پنڈال کو بھر دیتے ہیں جن میں سے نصف تعداد کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں ہوتی، یہ مجمعے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ مولانا کو جلسہ گاہ کا نظارہ دوربین کی مدد سے کرنی پڑتی ہے۔ یہ بھی ایک پروپیگنڈہ ہے ان کی نفسیات کو قابو کرنے اور دنیا کو دکھانے کےلیے اور خصوصا اسٹیبلشمنٹ کو دکھانا ہوتا ہے کہ یہ دیکھو ہمارے پاس کتنا بڑا مجمع ہے۔ یہ مجمعے سیاسی سودا پکا کرنے کےلیے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ ایسے مجمعوں میں کارکنوں کی حیثیت بکرا منڈی کے بھیڑ بکریوں جیسی ہوتی ہے، سیاسی لیڈروں نے یہ دکھانا ہوتا ہے کہ یہ دیکھو ہماری ملکیت میں قربانی کے مال بھی ہیں عقیقہ کے مال بھی، قصائی کے ذبح کےلیے بھی ہیں اور خیرات کے مال بھی۔ یوں ان کا سودا لگا لیا جاتا ہے۔ 2017ء کو پشاور میں جو صدسالہ اجتماع منعقد کیا گیا تھا اس پر 2018ء الیکشن سے متعلق سودے بازیوں کی کہانی کے سلسلے میں آپ ”نشیب و فراز“ میں حالات و واقعات پڑھ سکتے ہیں۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
سکھر ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ میں ایک بیان سننے کو ملا، ایک مقرر نے اسٹیج سے اتنے بڑے مجمع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:
”ہمارے صوبے میں سخاکوٹ علاقہ سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل بادشاہ نے ایک خواب دیکھا ہے، جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک تحفہ وصول کیا۔ یہ تحفہ جمعیۃ کے جھنڈے کی صورت میں یوں وصول ہوا کہ نبی علیہ السلام نے جھنڈا ان کے چہرے (یا سینہ) پر رکھا۔ وہ جب بیدار ہوئے تو اس جھنڈے کو فی الحقیقت اپنے چہرے پر ہی پایا۔ انہیں بذریعہ خواب بتایا گیا کہ جس نے بھی یہ جھنڈا اپنے گھر پر لگایا اس کی تمام پریشانیاں دور ہوں گی، اگر بندہ قرض دار ہوں ہو تو قرضوں کی ادائیگی میں سہولت ہوگی۔ مولانا فضل بادشاہ نے یہ تجربہ بھی آزمایا ہے۔ آپ لوگ بھی وعدہ کریں کہ جلسہ کے بعد اپنے گھروں پر یہ جھنڈا لگائیں گے۔“
یہ تقریر راشد سومرو یا اسلم غوری نہیں کررہے تھے اور نہ ہی کسی سندھ کے درگاہ کے پیر و ملنگ یا فقیر یہ باتیں کر رہے تھے بلکہ مفتی محمود کے بڑے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں ان کے سگے بھائی عطاءالرحمن یہ بیان کر رہے تھے۔
31 مارچ 2012ء کو مینارِ پاکستان کے سائے تلے ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں بھی ہم رحیم یارخان سے شریک ہوئے تھے، جہاں سخاکوٹ کے فضل بادشاہ کی اس خواب اور عبدلخیل کے عطاء الرحمن کی اس تقریر کو اسٹیکر کی صورت میں ترتیب دیکر پاپڑ کی طرح فروخت کیا جارہا تھا۔ دنیا مریخ تک پہنچ گئی ہے لیکن جمعیۃ کے کارکنوں میں اسٹیکر کو اب بھی وہی مقام حاصل ہے جو 90ء کی دہائی میں حاصل تھا، سو ہم بھی مولانا ہی کے کارکن تھے، اب مولانا کے کارکنوں کا عقل و فکر سے کام لینے کا کیا واسطہ؟ سو میں نے بھی کئی اسٹیکرز خرید لی، مجھے یاد پڑتا ہے کہ اسٹیکر والے پر اتنا ہجوم تھا جیسے کہ پی ڈی ایم حکومت ہمیں یوٹیلٹی سٹورز اور پٹرول پمپس اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیکر بنانے والے کارکنوں کے نفسیات کو اچھی طرح جانتے تھے، یہ اسٹیکر میرے خیال میں تقریبا اس وقت 10 روپیہ کا بکتا تھا اور اتنی تعداد میں چھاپی گئی تھی کہ جلسہ کے اختتام تک ختم ہوتے نظر نہیں آئے۔ بہرحال ہم چونکہ بغیر اجازت کے جلسہ گئے تھے، مدرسہ کا ناظم استاذ صوفی مزاج آدمی تھے، میں نے واپسی پر فقط ایک ہی اسٹیکر انہیں بطور تحفہ پیش کیا جس سے ایک تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا جس پر ہم سرزنش سے بچ نکلیں، دوسرا وہ حد درجہ خوش ہوئے اور اسٹیکر اٹھا کر اپنی الماری کے اندر سے چند کتابیں اٹھا کر اس کےلیے جگہ خالی کردی اور وہاں اسٹیکر یوں چسپاں کردیا کہ شیشہ سے تو دکھائی دے لیکن ہاتھ کے ذریعے اس تک رسائی ممکن نہ ہو۔ روز صبح کی نماز کے بعد وہ جب اپنے کمرے میں داخل ہوجاتے تو سب سے پہلے الماری کی طرف جاتے اور شیشے سے اس اسٹیکر کی زیارت کرتے، میں نے کئی بار انہیں زیارت کرتے دیکھا اور ان کی تاثرات سنی، ہر بار دیکھتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔
اگست 2021ء میں جب میں ”نشیب و فراز“ کے مندرجات سے متعلق کچھ واقعات کی تصدیق و توثیق کےلیے خیبرپختونخوا گیا تھا تو یکا یک یہ واقعات ان ہی دنوں مجھے یاد آیا، میں نے فضل بادشاہ کے علاقہ کے دوستوں سے اس سلسلے میں جاننے کی کوشش کی تو وہ حیرت زدہ ہوئے کہ یہ واقعہ آپ کے ہاں بھی پہنچ گیا؟ میں نے کہا کہ اس پر اصل کاروبار ہی سندھ اور پنجاب میں ہوا ہے۔ کہنے لگے کیسے؟ میں نے کہا عطاء الرحمن نے سکھر میں تقریر کی اور لاہور میں یہ تقریر اسٹیکر بن کر فروخت ہونے لگی، یہ سن کر وہاں کے ساتھی انتہائی حد تک متعجب اور حیرت زدہ ہوئے کہ یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا ذرا اصل کہانی سنائیے! انہوں نے جو کچھ سنایا، اس کا خلاصہ آج آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
الیکشن 2013ء میں مردان کے قومی نشست سے مولانا قاسم کھڑے تھے (جو ضمنی الیکشن میں عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے ہیں) مالاکنڈ کے صوبائی نشست سے ان کے بھائی حافظ سعید کھڑے تھے۔ ان کو انتخابی کمپین کےلیے ایک منظم پروپیگنڈہ چاہیے تھا۔ اس کےلیے شیر گڑھ کے جاوید گل کے مکان پر ایک مشاورت ہوئی جس میں یہ خواب گھڑ لیا گیا۔ پہلے پہل یہ فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ یہ خواب خود مولانا قاسم یا حافظ سعید ہی میں سے کوئی سنالیں تاکہ ووٹ متاثر نہ ہو۔ لیکن وہ دونوں چونکہ امیدوار تھے، یوں ایک نامعلوم بندے کی تلاش شروع ہوئی، ایک غیر معروف مولوی سخاکوٹ کے فضل بادشاہ انہیں جلد ہاتھ آئے جن کے لین دین اور کاروباری معاملات میں دیانت و خیانت کے بارے میں کسی کے پاس کوئی معلومات نہ تھا کہ خواب کو ٹھکرائے۔ سو یہی بندہ کار آمد ہوسکتا تھا۔ انہیں بلایا گیا کہ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالیے، سن کر وہ راضی ہوئے، کیوں کر راضی نہ ہوتے ایک طرف اسلام کا نمائندہ مولانا قاسم کھڑے تھے تو دوسری طرف ان کے مدمقابل یہودی ایجنٹ علی محمد خان، یہ خواب پہلے صوبائی کابینہ میں ڈسکس ہوا۔ صوبائی امیر مولانا فضل الرحمن کے استاذ شیخ امان اللہ خان تھے اور جنرل سیکرٹری پھر وہی مولانا قاسم۔ چنانچہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ امانت شاہ، عطاءالرحمن ٹائپ کے ایمان داروں کے ذمے لگایا گیا کہ اس خواب کو خوب جلسوں میں سنایا کریں، اب میں سوچتا ہوں کہ عطاءالرحمن نے سکھر میں موقع پایا کہ سندھ میں بھی یہ پاپڑ اچھی فروخت ہوسکتا ہے۔ اسی تناظر میں سنایا ورنہ بلوچستان میں مولانا شیرانی کے ہوتے ہوئے اس مبارک خواب سننے کا شرف شاید آج تک ہمیں حاصل نہ ہوتا۔ چونکہ پنجاب کے مذہبی لوگ بھی ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں، وہاں بھی کشف و کرامات اور خوابوں کی دکان داری عام ہے، وہاں یہ خواب اسٹیکر کی صورت میں چھپ کر منظر پر آگئی۔
کہا جاتا ہے کہ شیر گڑھ کے جاوید گل (جس کے گھر میں یہ خواب گھڑنے کا مشورہ طے پایا تھا۔) کو کچھ دن راضی رکھنے کےلیے جھنڈا ان ہی کے گھر پہ لگایا گیا۔ چونکہ فلم کے مرکزی ہیرو فضل بادشاہ قرار پائے تھے، ان کی بزرگی کا چورن بامِ شہرت کے عروج کو پہنچا ہوا تھا اس لیے جاوید گل کے گھر سے یہ جھنڈا اتار کر فریم میں بند کردیا گیا۔ جس پر جاوید گل بھی ناراض ہوئے کہ یہ کیا تماشا چل رہا ہے۔ کچھ عرصہ بعد دلبرداشتہ ہوکر پارٹی چھوڑ گئے اور عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
سخاکوٹ کے فضل بادشاہ کی بزرگی کا چرچا اتنا عام ہوگیا کہ ملک بھر سے جھنڈے کی زیارت کےلیے لوگ آتے، جھنڈے کے متعلق مشہور کیا گیا کہ اسے کپڑے کی فیکٹریوں کو لیبارٹری کرنے کےلیے دکھایا گیا تو اس پر کپڑے کی مشینوں کے ذریعے خوب تحقیق کی گئی، جس سے واضح طور پر پتہ چلا کہ یہ کسی دنیوی فیکٹری کی ایجاد کپڑا نہیں، جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کپڑا بھی لامحالہ جنت کا ہی ہے لہذا خواب کے متعلق کسی کو کوئی گمان نہ گزرے، اندازہ کیجیے جھوٹ پہ کیسے جھوٹ گھڑتے جارہے ہیں۔
فضل بادشاہ نہایت غریب آدمی تھے، جھنڈے کی زائرین جب زیارت کےلیے آتے تو انہیں صرف پانی پلانے پہ ہی گزارہ تھا، جس پر نرم دل مگر حد درجہ ضعیف الاعتقاد زائرین نے مزاروں پر چڑھاوے کی طرح نذرانے دینے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ روز ملک کے طول و عرض سے زائرین کی آمد سے ان کے گھر چولہا بھی جلنے لگا۔ 2013ء کا الیکشن ہوگیا۔ حافظ سعید اور مولانا قاسم دونوں ہار گئے لیکن مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی عطاء الرحمن دونوں اسمبلی تک رسائی میں کامیابی حاصل کرلی۔
اب ایک بار پھر الیکشن کی آمد آمد ہے، مولانا کی کارگردگی یہ ہے کہ اپنی جماعت کو ہی روز بروز ٹکڑوں در ٹکڑوں میں تقسیم کرتے جارہے ہیں، الیکشن کارڈ ان کے پاس فی الحال نہیں، صدر پر تنقید کرتے ہوئے الیکشن کے راہ فرار ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، الیکشن کے قریب لوگ ناراض دوستوں کو بھی راضی کرتے ہیں جب کہ ان کی حالت یہ ہے کہ راضی دوستوں کو بھی ناراض کرتے جارہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کس کارڈ پہ لوگوں کو بیوقوف بنائیں گے، بغور دیکھنا ہے کہ اب کی بار یہ کونسے پاپڑ بیچیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں