مطالعہ بلوچستان
تحریر: ایس کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“اب تمہیں اس جنگ کیلئے پوری طرح تیار ہونا چاہیے”
بلوچستان ایک قوم ہی کا دیش ہے، ایک انسانیت، بہادری و نرمزاری اور فلسفیانہ محبت کی داستانوں کو جنم دینی والی دھرتی ماں لیکن اب اس دیش میں واقع مختلف جگہوں پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں،ماؤں کی چیخوں سے پہاڑوں کی چٹانوں پر بیٹھنے والے چرواہے لرز اٹھی ہیں، یہ مائیں کربلہ کی داستانیں گنگنا رہی ہیں، یورپ کی نوآبادیاتی دور حکومت کو یہاں دیکھ رہی ہیں،غیروں کی زندانوں میں ماؤں کی گود سے جنم والی/والے بلوچ نوجوان سسک کر مر رہی ہیں،بہنوں کی جنسی تشدد کی کہانیاں سنانے لگی ہیں اور دیسی باشندوں کی سروں کو قلم کرکے دور کسی گٹر یا ویران جگہوں میں جاکر وہاں انہیں بغیر دفنانے کے بدبودار سڑن ناک حالات میں کجھور دانہ کی طرح بغیر کجھور کے پھینک دیتی ہیں لیکن پھر بھی مطالعہ بلوچستان کی جگہ مطالعہ پاکستان پڑھاتی ہیں، بچوں اور بڑے بڑے مونچھ والے ترم خانوں کو اپنی نفسیات کے مطابق جھوٹے عقائد و رسومات منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کرکے،علم و دانش کی راہوں کو اپنی مہذبانہ سوچ سے جکڑا کر ایک ” انتہاہی پسندی کا رجحان” پیدا کرتی ہیں جو ہر حال میں زہر بحث لانا ہے۔
عام بات یہ رہا ہے کہ اگر کوہی بندہ مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ منصوبہ بند پروپگھڈوں کو اگر نہ پڑھ لیں تو وہ ڈگری سے محروم ہوجاتا ہے کیونکہ اس نظام کو ایک منصوبہ کے تحت لوگوں پر مسلط کر دی ہے، لوگوں کو پیروکار بنا کر مختلف اقوام کو بوٹوں تلے روندتے چلی آئی ہیں۔
لہذا یہ نظام ہمیں دہشتگردی کا ٹھپہ لگا کر ریمانڈ کے دوران مرواتی ہے جو کبھی قابل قبول نہیں کیونکہ ہماری دھرتی ماں کی ایک الگ پہچان ہے، ایک الگ قوم جس کی مثالیں تاریخی کتابوں میں زیر نظر ہیں۔
یہ نظام اس لیے چل رہا ہے کہ یہاں مطالعہ پاکستان کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ لوگ جوبز کیلئے اپنی ماؤں اور بہنوں کو بیچنے لگی ہیں، اپنے رشتہ داروں کی گھروں کو مسمار کرنے کے لئے غیروں سے پیسے لیکر خود بند گاڑیوں میں بند سیاہ شیشے کے پیچے مونچھوں کو تاؤ دے کر پیسوں کو اپنے باقی قومی غدار ہمسفروں پر تقسیم کرتے ہیں لیکن سیاہ شیشے گاڑیوں سے باہر لوگ رو رو کر کسی نوآبادیاتی نائب ناظم سے لیکر جھوٹی سیٹ پر بیٹھنے ولا آدمی تک اپنی آواز کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر یہ آواز محدود ہے، ایک گلی کے لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کیونکہ لوگ اپنے گھروں اور دیشوں کے سوداگر بن چکی ہیں، فیڈریشن کے نام پر اپنے ہی عوام کو دھوکا دیکر ان کی رونے دھونے کی انتظار کرتی ہیں۔
یہ غیر لوگ ماھل بلوچ جیسی معصوم بلوچ عورت کی جھوٹی ایف آئی آر کاٹ کر انہیں مسلسل ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتی ہیں۔ ماھل بلوچ دو معصوم بچیوں کی ماں ہے۔ ان کی فیملی ممبرز کوئٹہ کی پریس کلب پر بیٹھ کر درنا دے رہی ہیں لیکن یہ جھوٹے قوم پرست پارلیمانی سیاست والے عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں، قوم پرستی کا نعرہ لگا کر دشمن ہی کے ساتھ بند کمرے میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں، اپنی اپنی لڑکیوں کو غیروں کے سے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دیتی ہیں لیکن خود اپنے ہی بلوچ لوگوں کی مانگ کو مسترد کرکے مختلف فرسودہ سوچ کے تحت الزام لگاتی ہیں،اپنے ہی باقی بلوچ ماؤں اور بہنوں کو بھول کر الیکشن کی بازار کو گرم کرنا چاہتی ہیں۔ یہ اس لیے ہورہا ہے کہ ہم اسی کشمکش کی بیناد پر تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں، اس میں ہماری خاموشی دن بدن مختلف حسد و بغض کو جنم دے رہی ہے۔
اگر یہ خاموشی مزید ایسا ہی رہا تو کل ہماری جنم دینی والی ماؤں یا بہنوں کو جیل کی ہوا نصیب ہوتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں