بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے ماہل بلوچ پر سی ٹی ڈی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پاکستان کی اپنی قانون میں کسی بھی شخص سے جبری طور پر اعترافی بیان لینے کی سختی سے تردید کی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں قانون اور آئین کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہاں تمام فیصلے سیکورٹی ادارے ہی کرتے ہیں۔ ماحل بلوچ کی جبری گمشدگی ، بعد از ان اہلخانہ کی جانب سے میڈیا کو دیے گئے بیان کے بعد ان کی جھوٹی گرفتاری، ان پر غیر قانونی تشدد اور اذیت یہ سب سی ٹی ڈی اور ان کے پیچھے موجود تمام قوتوں اور ان کے ارادوں کو عیاں کرتی ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں جب کہ سی ٹی ڈی ایسے بے بنیاد الزامات کے بنیاد پر بلوچ قوم کو نشانہ بنارہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ماہل کی گرفتاری سے پہلے سی ٹی ڈی نے بلوچستان بھر میں جھوٹے کیسز کے بنیاد پر الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں، اس سے پہلے خضدار سے تمام طلبہ کے سامنے حفیظ بلوچ کو لاپتہ کر کے ایک مہینے بعد نصیر آباد سے اُن کی گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ کیچ اور کراچی سمیت بلوچستان بھر میں سی ٹی ڈی نے ایسے درجنوں جھوٹے کیسز بنائے ہیں جن کے ثبوت میڈیا میں موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے بلوچستان کے معاملے میں قانون کی کوئی پاسداری نہیں ہوتی اور اس پر ریاست کے اندر کوئی بولنے والا بھی نہیں ہے۔ ماحل بلوچ پر لگائے گئے جھوٹے الزامات اور اب ان کا اعترافی بیان جسے شدید جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کے بعد بنوایا گیا ہے اس کی بلوچ عوام کے اندر کوئی حیثیت نہیں البتہ ایسے حرکتوں سے سی ٹی ڈی بلوچستان میں حالات کو مزید سنگینی کی جانب لے جارہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ ان تمام غیر قانونی اقدامات کے باوجود سیکورٹی فورسز پر سوالات اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔
بیان کے آخر میں ترجمان نے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سی ٹی ڈی کے ایسے الزامات ایسے نئے نہیں ہیں بلکہ یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ ماہل سے پہلے بھی بلوچ خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اگر ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف سیاسی مزاحمت نہ دکھائی گئی تو یہ سلسلہ آگے جا کر مزید خطر ناک شکل اختیار کر سکتی ہے اس لیے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائیں۔