لاپتہ رشید کی والدہ بیٹے کی جدائی کا درد لئے انتقال کرگئی

455

بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی پانچ سالوں سے جبری لاپتہ رشید بلوچ کی والدہ اپنے بیٹے کی راہ تکتے تکتے انتقال کرگئی۔

خاندانی ذرائع کے مطابق گذشتہ شب رشید کی والدہ کو دل کا دورہ پڑا تھا اور یہ دل کا دورہ اس کے لئے جان لیوا ثابث ہوگیا۔

لاپتہ آصف کی ہمشیرہ اور رشید کی کزن سائرہ بلوچ نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ “کون کہتا ہے کہ ریاست ماں ہوتی، یہ تو ہماری ماؤں کو نگل رہی ہے۔ لاپتہ رشید کی والدہ اپنے بیٹے کے دید کیلئے ترستی رہی اور انتقال کرگئی۔”

انہوں نے کہا کہ “آخری وقت میں اگر منہ سے کلمہ کے بدلے اپنے لاپتہ بیٹے کا نام ہو، ان ماؤں کی دل سے نکلی ہوئی آہ کی وجہ سے یہ ادارے ضرور عبرت کا نشان بنیں گے۔”

31 اگست 2018 کو پاکستانی فورسز نے نوشکی میں زنگی ناوڑ پکنک پر جانے والے دس افراد کو حراست میں لیا تھا، مذکورہ افراد کی زیر حراست تصاویر بھی فورسز کیجانب سے شائع کی گئی کہ میڈیا پر اس حوالے سے خبر نشر کی گئی۔

تاہم بعدازاں مذکورہ افراد کو لاپتہ رکھا گیا۔ لاپتہ ہونے والوں میں باقیوں کو دو سال کے دوران مختلف اوقات میں چھوڑ دیا گیا جبکہ ان کے ساتھ لاپتہ ہونے والے آصف اور رشید بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔

لاپتہ آصف و رشید کی بازیابی کیلئے ان کے لواحقین کوئٹہ، کراچی اور اسلام میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرچکے ہیں جبکہ اس حوالے سے لاپتہ افراد کمیشن میں بھی حاضر ہوتے رہے ہیں تاہم ان کے پیاروں کی واپسی تاحال نہیں ہوسکی ہے۔

بلوچستان میں کئی لاپتہ افراد کی مائیں اپنے بچوں کی راہ تکتے اس دنیا سے چل بسے ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے مظاہروں کے دوران ایسے مناظر دیکھے گئے ہیں کہ لاپتہ افراد کے والدین بے ہوش ہوگئی ہیں۔

بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی فورسز کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لوگوں کو جبری لاپتہ کرنے کی ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔