قرآنی تعلیمات کا از سر نو جائزہ لینے کےلیے پہلی بار ایک سازگار ماحول ۔ اسماعیل حسنی

216

قرآنی تعلیمات کا از سر نو جائزہ لینے کےلیے پہلی بار ایک سازگار ماحول

تحریر: اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

معلوم تاریخ کے مطابق قرآن کریم کی اولین کامل تفسیر اور اسلام کے صدر اول کی مکمل تاریخ ایک ہی بندہ نے مرتب کی ہے اور وہ ہے امام طبری۔ ان کی تفسیر کو تفسیر طبری کہا جاتا ہے اور تاریخ کو تاریخ طبری۔ یہ دونوں کام انہوں نے تیسری صدی ہجری کے اختتام پر کیا ہے۔ تاریخ میں ان سے منقول بہت سے خرافات اور صحابہ کرام سے متعلق گروہی بغض و عناد دیکھ کر اہلسنت خود کو یہ تسلی دے بیٹھتے ہیں کہ جی دراصل امام طبری دو ہیں۔ ایک مفسر طبری ہے اور دوسرا مؤرخ طبری۔ جب کہ یہ ایک خالص مفروضہ ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں کہ طبری دو ہیں، طبری ایک ہی ہیں۔ سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں کہ مفسر طبری کے دادا کا نام، مؤرخ طبری کے دادا کا نام بالکل الگ الگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام طبری کے دادا کا ایک نام اسلام قبول کرنے سے پہلے کا ہے اور دوسرا نام اسلام قبول کرنے کے بعد کا ہے۔ محض یہ تبدیلی اس کے پوتے کو تبدیل کرنے یا دو طبریاں بنانے کےلیے بطور دلیل نہیں۔

ہماری مروجہ تمام تفاسیر کسی نہ کسی درجے میں تفسیر طبری ہی سے منقول ہیں۔ کوئی بالواسطہ نقل کرتا آیا ہے تو کوئی بلاواسطہ۔ خود ابن کثیر بھی طبری ہی کی تلخیص ہے۔ دنیا جہاں میں شاید ہی کسی علم و فن اور تحقیق میں اتنی زیادہ کاپی پیسٹ اور اندھا دھند تقلید ہوتی آئی ہو جس کی جھلک ہمیں فن تفسیر میں نظر آتا ہے۔ 1100 سال سے جتنی بھی تفسیریں لکھی جاتی رہی ہیں، سب کسی نہ کسی حیثیت سے امام طبری کی تتبع میں لکھ رہے ہیں، خدا وند عالم قرآن کریم کے ہر ہر صفحے میں عقل و شعور اور تدبر و تفکر سے قرآن کریم کو سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن یہاں قرآن کھولتے ہی عقل کو تین طلاق دینے بیٹھ جاتے ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ خدا تعالی کے اس عظیم کلام کے ساتھ اتنا دردناک ظلم کہ دنیا کا کوئی کتاب بے سمجھے اس پیمانے پر کوئی نہیں پڑھتا جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ ختم پہ ختم ہو رہا ہے، نہ مصلے پر حافظ کو پتہ ہے اور نہ ہی صفوں میں سر لٹکائے مقتدیوں کو علم ہے کہ اللہ کیا فرما رہا ہے، اتنا ظاہر پرست تو یہودی بھی نہیں کہ توریت کے محض الفاظ کو کافی سمجھ کر تلاوت کریں، اب جہاں تفسیریں ہورہی ہیں وہاں تو اس سے بھی زیادہ ظلم عظیم، بات چل رہی تھی امام طبری کی تفسیر کی، ان کی طرز تحریر تاریخ میں فرقہ وارانہ اساس پر ہے اور تفسیر میں کچھ محتاط نظر آتے ہیں۔ اس احتیاط کی خوش فہمی میں انہیں اہلسنت سمجھا جاتا ہے جب کہ وہ تفسیر و تاریخ میں دادا کے تعارف میں تقیہ سے کام لیتے ہوئے پڑھنے والوں میں اعتماد پیدا کرتے ہیں۔

ہم کلی طور پر نہ امام طبری کی تفسیر پر نقد کر رہے ہیں اور نہ ہی تاریخ کو رد کر رہے ہیں اور نہ ہی یہ ہمارا کام ہے، البتہ ہمارا یہ نظریہ ضرور ہے کہ قرآن کریم کے بعد ہر کتاب میں کسی نہ کسی حد تک رطب و یابس مواد جمع ہوکر نقل ہوئے ہیں۔ ہم انہیں قرآن کی ترازو میں تولنے کو درست سمجھتے ہیں لیکن خود قرآن کو ان کی عدالتی فیصلے پر نہیں پرکھ سکتے، اس لیے کہ سینہ در سینہ منقول کسی بھی تاریخی اور تفسیری روایت کو محض اس لیے دلیل ماننا کہ کسی بڑی سی بڑی کتاب میں درج ہوکر آئی ہے، یہ درست نہیں، انسانی کاوش میں بہرحال لغزش و خطاء کا امکان ہے اگرچہ وہ کوئی مجتہد فی الزمان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ آج کوئی اللہ کا بندہ قلم ہاتھ میں لیکر کتابوں اور لائبریریوں کی بجائے محض رجال کی اسناد سے ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر یا ظہیر الدین بابر کے دور کے حالات نقل کرکے ایک ضخیم تاریخ مرتب کرلے یا ان سے منسوب سینہ در سینہ روایات نقل کرکے اقوال کی صورت میں ترتیب دے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی روایت بیان کیا جاتا ہے تو آخر میں راوی یا ناقل یہی کہتا ہے کہ
”او کما قال رسول اللہ صلی الله عليه وسلم“
(یعنی یوں یا اس جیسے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔)
یقین کے ساتھ فقط قرآن کریم کی آیتیں بغیر کسی راوی کے تذکرے بیان کیے جاسکتے ہیں، اس لیے کہ دورِ نبوی میں کتاب فقط قرآن کریم مرتب ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے علاوہ چیز لکھنے سے ہی منع فرمایا تھا۔ (لاتکتبوا عنی غیر القرآن و من کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ، ترمذی) تفصیل مناسب نہیں اس لیے آج ہماری موضوع بحث صرف اور صرف فن تفسیر کی اصل ماخذ تفسیر طبری ہے۔

امام ابوحنیفہ نے پہلی صدی پایا لیکن کوئی کتاب نہیں لکھی، یہ کام انہوں نے سنتِ رسول اور اتباع خلفائے الراشدین کی روشنی میں نہیں کیا، امام ابوحنیفہ نے جن عظیم رجال کا زمانہ اور قرآنی بصیرت پایا اگر علم تفسیر پر کوئی کتاب لکھ دیتے تو شاید امت طبری اور ابن کثیر سے ہی بے نیاز ہوچکا ہوتا۔ اگر حدیث یا تاریخ پر لکھ لیتے تو امت کو صحاح ستہ کی طرف مراجعت کی حاجت ہی پیش نہ آتی۔ انہوں نے دانستہ طور پر یہ کام نہیں کیا کہ فہم قرآن عام ہے اسے کسی زمانہ کے ساتھ خاص کرکے مقید نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس لیے بعض مواقع پہ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں اپنے شاگردوں کو اپنی آراء لکھنے سے ہی منع فرمایا۔ وہ ہر دور کے مسلمان کو پورا پورا حق دیتے ہیں کہ وہ قرآن کریم پر از خود غور کرکے الہی حکم تدبر اور تفکر کی بجا آوری سے سبکدوش ہو جائیں، امام اعظم رجالِ متقدمین کو ”تلک امت قدخلت“ کی روشنی میں تولنا اچھا نہیں سمجھتے تھے اس لیے تاریخ رجال پر بھی انہوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی اور اپنی فہم کو مقید کرکے مستقبل کے مسلمان کو اس کی پیروی پر مجبور کرنے کےلیے تفسیر کی صورت میں بھی قرآن کریم پر کوئی اضافی کتاب لکھ کر تصنیف کی صورت میں بطور ورثہ نہیں چھوڑی۔ جنہوں نے لکھی ہے غلط نہیں کیا ہے، ہر کسی نے اپنے زاویہ نظر سے درست سمجھ کر لکھا ہے مگر وہ سب عام انسان ہی تو ہیں، لہذا انہیں ہرگز غلطیوں سے مبرا نہیں کہا جاسکتا۔ امام طبری کی تفسیر یا اس تفسیر سے منقول تفاسیر کا بھی یہی مقام ہونا چاہیے خود کتاب اللہ کا درجہ کسی بھی تفسیر کو ہرگز ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔

امام طبری نے تفسیر طبری جو لکھی ہے اس میں البتہ ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ نہ صرف تمام تفسیری روایات کو درج کیا ہے بلکہ اس میں ذکر روایتوں کی اسناد کو بھی جابجا ذکر کیا ہے۔ بعد والوں نے جب سلسلہ وار ان سے کاپی در کاپی کی ہے تو سب سے پہلے یہ کام ہوا ہے کہ کتب کی ضخامت کو گھٹانے کےلیے روایات کو برقرار رکھ کر اسناد کو بیچ سے نکال دیا گیا ہے۔یوں ہر آنے والے مفسر نے مجموعہ روایات کو درست خیال کرتے ہوئے اپنی اپنی تفاسیر میں انہیں جگہ دی ہے۔ اس سلسلہ نقل در نقل کو امام احمد بن حنبل کی فقیہانہ نگاہ بصیرت نے طبری سے بھی پیشتر تاڑ لی تھی کہ ”تفسیری روایات بے بنیاد ہیں۔“ وجہ صاف ظاہر ہے کہ منسوب الی الرسول ان روایات کے ہوتے کون جرات کرسکتا ہے الہی حکم ”تدبروا ۔۔ تفکروا“ کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھ سکے؟ فہم قرآن کو روایات نے متعین کرکے اس پر مہر لگادیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گزشتہ 11 سو برس سے فہم قرآن کے معاملے میں وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں امام طبری کے دور میں تھے۔ جس نے بھی غور و فکر اور عقل و شعور کی روشنی میں قران کو سمجھنے کی کوشش کی، فتوؤں کے ترکش سے تیر نکال کر اسے جھٹ سے معتزلی یا مر تد کہہ کر واجب القتل قرار دیا گیا اور پھر ریاست کی سرپرستی میں اس کی سرکوبی کی کہ اس گمراہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمان پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم میں بھی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے لگتا ہے۔

ہماری تاریخ میں یہ ایک تلخ مگر مسلمہ حقیقت ہے کہ عوام تو رہے عوام، خواص یعنی وقت کے حکمران بھی اپنے لیے اس نظریہ کو قرین مصلحت سمجھتے تھے کہ حکومت عوام میں مقبول قوتِ ارادی کے تابع ہی طول پکڑ کر چل سکتی ہے۔ اب عوام کی قوتِ ارادی کیا تھی؟ عقل و فکر سے نجات۔ اس لیے کہ عام انسان عقل و فکر کے استعمال کی زحمت کو ہرگز گوارا نہیں کرسکتا بلکہ رائج رسومات کے پیچھے بغیر دلیل و حجت کے دوڑ پڑتا ہے۔ چنانچہ اس ضرورت کے پیشِ نظر سرکاری سطح پہ عوام کو عقل و شعور پر ابھارنے والی کتابیں تلاش کر کر کے تلف کردی گئی۔ کہیں کسی کتاب کا حوالہ ملتا یا کسی ذی شعور عالم کا تذکرہ بطور حوالہ زیر بحث آتا تو آگے سے فورا اس صاحب کتاب عالم کے متعلق یہی جواب ملتا کہ اس کے متعلق تو فلان شیخ نے یوں لکھا یا یہ کہا ہے۔ یوں ایک ہزار برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن قرآن پر غور و فکر کےلیے ہم آگے نہیں بڑھ پائے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہر دور میں خود علماء کے ہاتھوں کسی کو بڑھنے نہیں دیا گیا۔ دلیل وہی کہ رسول کریم صلی الله عليه وسلم نے یوں فرمایا ہے، اب اس نسبت کے بعد کیا گنجائش باقی رہ جاتا ہے؟ چنانچہ اس سلسلے میں جس نے بھی الہی حکم (تدبروا اور تفکروا) کے تابع آواز اٹھایا، اسے سرکار کی سرپرستی میں فقیہ شہر نے تہہ تیغ کرنے کا فتوی صادر کیا۔ روایتی اور درباری علماء کی تو دنیا ہی اتنی ہے کہ وہ فورا فتوی صادر کرتے ہوئے ہمیشہ عوامی ماحول کے پابند ہوتے ہیں، محقق علماء کو بھی خوف دلانے کی کوشش کی گئی۔ جو علماء عوام کی لومۃ لائم سے بے نیاز اور حکمرانوں کی خوف سے آزاد تھے، اسلام کی ہر صدی اس سے بھری پڑی ہے، سب کا تذکرہ ممکن نہیں۔ بطور نمونہ کچھ نام ذکر کرنا مناسب ہے۔
(1) امام نفیس شہرستانی (461-395ھ) کو سولی پر لٹکا دیا۔ (2) امام الشیخ محمد طاہر المکی (460-417ھ) کوزندہ جلا دیا (3) امام معین الدین العش العراقی (363-313ھ) کوسولی پر لٹکادیا۔
(4) امام شارق الوی فلسطینی (457-407ھ) کو پھانسی دیدی گئی۔
(5) امام عبد اللہ زنجانی آف عریبیہ (610-459ھ) کو پھانسی دیدی گئی۔
(6) امام راغب الاصفہانی (1409-1327ء) کا سر کاٹ کرکے تن سے جدا کر دیا
(7) امام احمد امین طاہر المصری (1953- 1883ء) کو جیل میں تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اوپر ذکر یہ سارے نام ان ائمہ عظام کے ہیں جنہیں فہم قرآن کے پاداش مسلم حکمرانوں نے تہہ تیغ کر ڈالا۔ تاریخ اسلام میں پہلی بار دنیا بھر میں مسلمانوں کی اپنی کہیں بھی کوئی پائیدار حکومت نہیں۔ نام نہاد مسلم ریاستوں میں تو اتنی آزادی بھی نہیں کہ از سر نو تمام ذخیرہ کتب کو قرآنی عدالت میں دیکھا جاسکے لیکن گزشتہ صدی کے اوائل سے پہلے کی بنسبت پھر بھی ایک امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ فہم قرآن کےلیے ایک زبردست سپیس جدید دور میں واقع ہوا ہے۔ اس سپیس میں اسلامی لیٹریچر پر مکمل نظرثانی آزادانہ طرز پہ ہونے جارہی ہے۔ فی الحقیقت علوم قرآنی سے نسبت رکھنے والے بیشتر علماء کرام اس آزادانہ طرز پہ کام کر رہے ہیں، جن کےلیے اپنے گرد و پیش کے حالات سازگار نہیں، وہ مسلم ریاستوں کے دباؤ یا عام مسلمان معاشرتی تناؤ کی وجہ سے آزادانہ جستجو سے کام نہیں کرسکتے، وہ سب مغرب کے ماحول کو اپنے لیے سازگار سمجھ کر وہاں کا رخ کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں