فکرِ شہید بالاچ جان
تحریر: خلیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شھید بالاچ جان ایک مخلص، ایماندار سر مچار تھے، جو بلوچ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گئے ۔ مجھے یاد ہے میں جب پہاڑوں پہ اپنے بلوچ جہد کاروں کے ساتھ یکجا ہوا تو شیھد بالاچ جان پہلے ہی بلوچ قومی تحریک میں شامل تھے۔ اس نے مجھے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس نے مجھ سے بات کی اور مجھے جہد کے بارے میں سرپدی دی اس نے مجھے حوصلہ دیا اور تنظیم کے بارے میں مجھے اپنی ذہانت سے بہت کچھ سمجھایا اور کہا کہ ہم یہاں پہ آ گئے ہیں وطن کی خاطر ، ھمیں چاھیے کہ ہم اپنے وعدے کے مطابق اپنے جھد اور اپنے پارٹی کو مضبوط کریں اس نے کہا ہمارا پارٹی اس وقت مضبوط ھو گا جب ھم اپنے پارٹی کے کاموں میں مخلص ہوں گے اور ہر ساتھی کو اپنے ساتھی کے ساتھ مہر و دوستی ھو گا اور وہ اپنے پارٹی کےکاموں کےلیے سوچے گا اور وہ یہ ارادہ کرےگا کہ ہم کہاں اور کس وقت دشمن کو نقصان دیں-
میں نے دیکھا کہ کچھ ساتھی کہتے تھے کہ شھید ھمیں پیسے نہیں دے رہا بالاچ اپنے لیے پیسے خرچ کرتا ھے-اور پتہ نہیں اپنی لاعملی کی وجہ سے کیا کہتے اور بولتے رہے لیکن شہید ایک دور اندیش جہد کار تھے وہ اپنے ساتھی جہد کاروں کی لاعلمی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور ہر وقت جہد کرتے تھے کہ وہ اپنی فکر اور عمل سے انکی ذہنی راہنمائی کرئے اور کوشش کرتے تھے سب دوستوں کو خوش رکھے جو اپنی لاعلمی کی وجہ سے محدود سوچ رکھتے ہیں۔
شہید کھبی بھی دوستوں کے ساتھ ناراض نہیں ھوتے تھے اور ہر وقت دوستوں کے ساتھ گرم جوشی سے ملتے تھے ،بہت سے دوست نا انجانے میں اس کے خلاف بہت باتیں کرتے تھے جو ان سے باخبر تھے لیکن کھبی بھی انکا گلہ نہیں کرتے بلکہ جہد کرتے تھے کہ وہ دوستوں کو انکی خبر نا ہونے دئے بلکہ جب بھی ان کے ساتھ ملتے تھے تو یہ گمان نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ ان چیزوں سے با خبر ہیں بلکہ ہر وقت بہترین کامریڈ جیسا ان سے ملتے تھے۔ انہیں دعا سلام اور انکی ھال پرسی کرتے تھے – وہ حد سے زیادہ اپنے جہد کار ساتھیوں کا خیال رکھتے تھے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ سیدھے راستے پر جا رہے ہیں۔
آج شہید اپنی جہد اور عمل کی وجہ سے شہادت کے عظیم مرتبے پہ فائز ہوگئے ہیں اور وہ سب ساتھی جو کل اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے آج شہید کی فکر اور سوچ کی وجہ سے شہید کے بارے میں جو سوچتے تھے آج اپنی اس سوچ سے شرمندہ ہیں اور شہید کی فکر اور سوچ کو سلام کرتے ہیں۔
اسی لئے میں اپنے بلوچ قومی تحریک آزادی کے کارواں کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ اپنے ہر مخلص اور ایماندار جہد کار کی قدر کریں اور اپنے فکر اور نظریے کو مضبوط کریں جو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہیں۔ اپنے جہد کے ساتھ مخلص رہ کر ہر غلط کو غلط کہیں اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دے کر سچ کہتے رہیں۔
شہید بالاچ جان مصیبت سے باہر حالات کا مقابلہ کرتے تھے ایسے بہت سے حالات آتے تھے کہ جہاں حالات بدتر ہوتے تھے تو شہید بالاچ جان بلند حوصلوں کے ساتھ انکا مقابلہ کرتے تھے اور سخت سے سخت مشکلات میں بھی پر امید اور پر حوصلہ رہتے تھے- وہ پارٹی ڈسپلن کے اس قدر پابندی کرتے تھے کہ زرے زرے کا حساب پارٹی ذمہ داروں کو دیتے تھے اور ہر پارٹی پالیسی کا پابند رہتے تھے۔
کھبی کھبی جب کیمپ میں خرچہ نہیں ہوتا تھا تو شہید خود اسکا بندوبست کرتے تھے اور پارٹی کو اس پہ کچھ نہیں کہتے تھے- بالاچ جان ایک ایسا ساتھی تھا کہ وہ تنظیم میں فضول خرچی کے بہت خلاف تھے وہ ہر وقت کہتے تھے تنظیم میں جو بھی ہے وہ شہیدوں کی خون سے ہے اسی لئے ہمیں ذرے ذرے کا خیال رکھنا ہے کیونکہ شہیدوں کی لہو ان میں شامل ہے وہ بے انتہائی حساس اور شعور سے لیس جہد کار تھے اور کہتےکہ ہمیں فضول خرچی کرنے سے پہلے ان شہیدوں کو یاد کرنا ہے جو اس جہد کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرچکے ہیں، ان مسنگ پرسنز کو یاد کرنا ہے جو برداشت سے باہر دشمن کے ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں اور انکے خاندان کے لوگ اپنے اوپر ایک طوفان برداشت کررہے ہیں۔ شہید بالاچ جان ایک عظیم بلوچ جہدکار تھے اور ہمیشہ بلوچ تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے-
ہمیں چاہئے کہ ہم شہید کے فکر کو لیکر دشمن پہ عذاب بن کر انکا بدلہ آزاد بلوچستان کی صورت قوم اور اپنی آنے والی نسلوں کو عطا کریں-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں