شی جن پنگ، ماؤزے تنگ کے بعد چین کے سب سے طاقت ور رہنما کے طورپر اپنی گرفت مضبوط کررہے ہیں اور تاحیات اقتدار میں رہنے کی راہ پر ہیں۔ جمعے کے روز روایت کو توڑتے ہوئے وہ تیسری مرتبہ پانچ سال کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔
جمعے کے روز نیشنل پیپلز کانگریس (این سی پی) کے تقریباً 3000 ارکان نے ایک بلامقابلہ انتخاب میں 69 سالہ شی جن پنگ کو صدر بننے کے لیے ووٹ دیا۔ اس انتخاب میں ان کا کوئی حریف نہیں تھا۔
سن 2018 میں شی جن پنگ نے ایک شخص کے دو مرتبہ سے زیادہ صدر بننے کی پابندی ختم کردی تھی اور اپنی تیسری مدت صدارت کے لیے راہ ہموار کرلی تھی۔
گزشتہ اکتوبر میں ان کے اختیارات میں پہلے ہی توسیع کردی گئی تھی جب انہیں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کے طورپر مزید پانچ سال کے لیے دوبارہ مقرر کیا گیا۔
پارلیمان میں جمعے کے روز ہونے والی ووٹنگ کے دوران شی جن پنگ کو چین کے مرکزی فوجی کمیشن کے سربراہ کے طورپر بھی تیسری مدت کے لیے متفقہ طور پر منتخب کیا گیا۔
ژاو لیجی کو پارلیمان کا نیا اسپیکر اور ہان ژینگ کو نیا نائب صدر مقرر کیا گیا۔ دونوں شی کی سابقہ ٹیم میں طاقتور پولٹ بیورو کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن کے طورپر شامل تھے۔
اگلے دو روز میں صدر شی کے منظور کردہ حکام کو تعینات یا منتخب کیا جائے گا، جو کابینہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے۔ ان میں وزیر اعظم لی کیانگ بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں توقع ہے کہ انہیں چین کے دوسرے نمبر پرآنے والے رہنما کے طور پر وزیر اعظم نامزد کیا جائے گا۔
اس بات کی پوری توقع کی جارہی تھی کہ نیشنل پیپلز کانگریس شی کی تقرری کی توثیق کردے گی۔ یہ ایک رسمی ادارہ ہے جس کے ارکان کی تقرری حکمراں جماعت کرتی ہے۔
سن 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی شی جن پنگ نے اپنے ممکنہ حریفوں کو کنارے کرنا شروع کر دیا تھا اور کمیونسٹ پارٹی میں اہم عہدوں پر اپنے اتحادیوں اور ہم خیال افراد کو فائز کیا۔
پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ میں این سی پی کے تمام 2952 ارکان نے شی جن پنگ کی تقرری کی حمایت کی۔ وہ پارلیمان کے اجلاس کے اختتام سے قبل خطاب کریں گے۔