سیاسی و معاشی سرگرمیوں پر بندش کا انجام ۔ اسد بلوچ

181

سیاسی و معاشی سرگرمیوں پر بندش کا انجام

تحریر: اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان میں حالات کی خرابی رواں شورش کے سبب ہے جسے اب بیس سال کا عرصہ ہو گیا ہے، طاقت ور حلقوں کی تمام دعوؤن کے برعکس مختصر خاموشی جنہیں کامیابی سمجھا جاتا ہے اچانک حالات ایسے بگڑ جاتے ہیں جنہیں کنٹرول کرنا مشکل لگنے لگتا ہے، حکومت حالات پر گرفت کے نام پر ہمیشہ ایسے احمقانہ فیصلے کرتی ہے جس کے منفی اثر پورے سماج پر پڑتے ہیں اور عام لوگ جو شورش میں خود کو درمیانہ طبقہ خیال کرتے ہیں مجبوراً ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان آواز اٹھانے والوں پر پھر گھیرا تنگ کرنے کی نت نئی ترکیبیں آزمائی جاتی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن نے گزشتہ ہفتہ “مکران میں اظہار رائے کی آزادی” کے عنوان پر تربت میں سیمینار کیا جس میں وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے سیاسی سرگرمیوں پر قد غن اور لکھنے کی آزادی کو محدود بنانے پر تشویش ظاہر کی گئی، ایچ آر سی پی کی سیمینار میں کہا گیا کہ بظاہر سرکاری سطح پر سماجی اور سیاسی سرگرمیوں پر کوئی بندش نہیں ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ غیر محسوس طریقے سے سماج پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

بلوچستان کے رواں شورش میں مکران سب سے زیادہ متحرک ہے اور سب سے زیادہ متاثر بھی ہوا ہے، 20 سالوں سے جاری جنگ ابھی تک کسی منطقی انجام کی جانب جاتا نظر نہیں آرہا ہے اس سے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ آئندہ بھی شورش سے اس خطہ کا اور زیادہ متاثر رہنے کا امکان موجود ہے۔

بلوچستان کے دیگر اضلاع کی نسبت مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع سیاسی طور پر ہمیشہ فعال رہے تھے اس لیے جب سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کی پالیسیوں سے شورش میں اور زیادہ اضافہ ہوا تو یہ خطہ اپنی سیاسی فعالیت کے سبب ایک لیڈنگ رول کے ساتھ نظر آیا جس کا لا محالہ نقصان بھی یہاں لوگوں کو زیادہ اٹھانا پڑا۔

بعد ازاں اس خطے میں ایک منصوبہ کے تحت سیاسی شعور ختم کرنے کی کوشش کی گئی، باشعور سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے اور مسخ شدہ لاشیں گرانے جیسے واقعات کے علاوہ پارلیمنٹ پرست اصل سیاسی قوتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی افراد کی ایک پوری لاٹھ تیار کرکے اسے سیاسی میدان میں اتارا گیا، حتی کہ اسمبلیوں میں بھی ان کو نمائندگی دی گئی، ان کی سیاسی بیک گراؤنڈ تھی نا ان کے پاس سیاسی شعور تھا بلکہ ان غیر سیاسی نمائندوں نے پارلیمنٹ میں جاکر عوام کے بجائے مقتدرہ کی نمائندگی کی اس کا اثر یہ ہوا کہ تمام انتظامی ادارے غیر فعال ہوگئے، بلوچستان کے وسائل پر عوام کی رسائی کمزور تر ہوتی گئی، گوادر میں باڈ لگانے اور سمندری سرگرمیوں میں ٹرالر مافیا کی کھلی چوٹ سے لے کر ایرانی سرحد پر سخت پابندیوں تک ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا جس سے عام لوگ معاشی طور پر سخت متاثر ہونا شروع ہوئے، ایرانی سرحد یہاں سالوں سے معاشی گزر بسر کا زریعہ رہا ہے، بارڈر سے وابستہ تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرکے عام لوگوں کی دسترس سے باہر کردیا گیا اس کا نتیجہ ایک مذید معاشی بے چینی کی صورت میں نکل آیا، مولانا ہدایت الرحمن نے حق دو تحریک کے زریعے معاشی سرگرمیوں پر قدغن کے خلاف تحریک شروع کی جس میں عوام نے بھرپور سپورٹ دیا لیکن جونہی مولانا ہدایت الرحمن کی تحریک معاشی نعروں کے ساتھ جب سیاسی رنگ لینے لگا تو اسے کریش کرنے کی کوشش کی گئی اور تشدّد کا راستہ اختیار کرکے حق دو تحریک کے سیکڑوں کارکنان پابند سلاسل یا ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، مولانا دو مہینوں سے جیل میں ہیں لیکن ان کی تحریک تمام تر تشدّد اور قید و بند کے باوجود توانا ہے اس کا اظہار رواں مہینے گوادر میں دو الگ ریلیوں کی صورت میں کیا گیا۔ مولانا کی گرفتاری کے بعد پہلی ریلی تحریک کے سربراہ حسین واڈیلہ نے نکالی گمان تھا کہ اس میں تحریک کے بانی کی عدم شرکت اور گرفتاری کے سبب عوامی شرکت کم ہوگی لیکن اس کے برعکس یہ ریلی کامیاب رہی جس سے شہہ پاکر اگلے ہفتے خواتین ریلی کا اعلان کیا گیا اس کی قیادت حق دو تحریک کے اہم خاتون رہنما ماسی زینی اور مولانا ہدایت الرحمن کی والدہ نے کی۔ خواتین کی ریلی عوامی شرکت کے سبب ایک کامیاب ریلی شمار کی جاتی ہے۔

حق دو تحریک سے شاید متاثر ہوکر تربت میں جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر خالد ولید سیفی نے بارڈر بچاؤ تحریک کا آغاز کیا ہے اس کا موازنہ گوکہ حق دو تحریک سے کیا جانا اس وقت مناسب نہیں ہے لیکن معاشی موٹو کے ساتھ اس کا مستقبل متاثر کن ہونے کا امکان ہے۔ بارڈر بچاؤ تحریک کے زریعے اب تک ایک ریلی تربت میں نکالی گئی ہے اور متعدد مقامات پر عوامی جرگہ کیے جاچکے ہیں ان میں مجموعی طور پر عوام کی شرکت اتنی زیادہ نہیں رہی ہے مگر خالد ولید سیفی کو امید ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو ایک پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال کرکے نوجوانوں اور عوامی جرگہ کے زریعے اس تحریک سے خصوصا عام لوگوں کو متحرک رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔ کیوں کہ انہوں نے فیس بک اور ٹویٹر پر ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس میں نوجوان بڑی تعداد میں اس کے ہمنوا ہیں۔ خالد ولید سیفی کے مطابق بارڈر بچاؤ تحریک کے آغاز سے ہی دباؤ اور ایک مخصوص طبقے کی جانب سے غیر ضروری پریشر کا سامنا ہے تاہم ان کے مطابق وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر بارڈر پر مافیا کے تسلط کو چیلنج کریں گے جس کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔

اگر حق دو تحریک کے بعد ضلع کیچ میں بارڈر بچاؤ تحریک جڑ پکڑ گئی تو اس سے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا مگر وہ قوتیں جو سیاسی شعور سے چڑ رکھتی ہیں یقیناً متحرک رہیں گی اور اسے نقصان پہنچانے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی۔ ایک گمان مگر یہ ہے کہ اصل سرکار خطہ میں کسی سیاسی جماعت کی سرگرمی کے بجائے مذہبی طبقے کی سرگرمی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے گی بلکہ اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرے گی کیونکہ تاریخ کا بیشتر ادوار مذہبی طبقہ اور اصل سرکار کے درمیان گڑھ جوڑ سے عبارت ہے تاہم حق دو تحریک کے ساتھ آخر میں کیا گیا سلوک بھی ایک نئی مثال ہے اس لیے یہ حرف آخر نہیں ہے کہ سرکار جمعیت علماء اسلام سے وابستہ ایک نیم ریڈیکل پڑھے لکھے نوجوان کو کھلا چھوڑ دے۔

مختصر یہ کہ مقتدرہ ہر بار غلط فیصلوں کی روایت اپنانے کے بجائے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے اور طاقت کو ایک جانب رکھ کر عوام کو یہ موقع دیں کہ وہ اپنے دسترس میں موجود معاشی وسائل پر آزادانہ پیوست رہیں اور انتخابات میں آزادی کے ساتھ اپنے من پسند امیدواروں کا چناؤ کریں اس کے بظاہر اصل سرکار یا ریاست پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں