سعودی عرب اور آئی ایم ایف دونوں پاکستان سے معاشی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں، مملکت اب اسلام آباد کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مزید بیل آؤٹ یا بلاسود قرضے فراہم کرنے سے انکار کرنے کے فیصلے نے اسلام آباد کی حکومت کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے اور وزیر خزانہ کو یہ شکایت کرنے پر مجبور کیا کہ دوست ممالک بھی پاکستان کو اس کی معاشی ایمرجنسی سے نکالنے میں مدد کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔
پاکستان کو اگلے ساڑھے تین سالوں میں تقریباً 80 بلین ڈالر کے بین الاقوامی قرضوں کی واپسی پر نادہندہ ہونے سے بچنے کے لیے امریکی ڈالر کی مسلسل آمد کی اشد ضرورت ہے جبکہ پاکستان کے پاس اس وقت صرف 3 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔
پاکستان 1980 کی دہائی سے اپنے 13ویں بیل آؤٹ پیکج پر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مشکل مذاکرات میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
اگر کوئی معاہدہ جلد نہیں ہوا تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی قرضوں کی واپسی مشکل ہو جائے گی، جبکہ وہ اپنا اعتماد پہلے کھو چکا ہے۔
حالیہ پیش رفت سے جانکاری رکھنے والے تجزیہ کاروں نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان پر نئے سودی قرضوں اور سرمایہ کاری کو سخت نگرانی اور مالیاتی اصلاحات پر عمل درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کی شرط لگا دی ہے جو کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مقرر کردہ شرائط سے ملتی جلتی ہے۔
کنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ فیلو عمر کریم نے کہا کہ پاکستانی حکام صدمے کی حالت میں ہیں۔
کریم نے بتایا کہ “جب کہ پہلے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک وزیر خارجہ یا وزیر اعظم کی فون کال کے ساتھ ہی پاکستان کو ضمانت دیتے تھے، لیکن اس بار انہیں واقعی اس چکی میں ڈالا جا رہا ہے۔”
خیال کیا جاتا ہے کہ حالیہ دورے میں پاکستانی فوجی سربراہ بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ملک کے لیے ہنگامی فنڈنگ کرنے پر قائل نہیں کرسکے۔
کریم کا خیال ہے کہ اس سے ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستانی فوجی سربراہان پہلے دوست ممالک کیلئے یقین دہانی کا ذریعہ رہے ہیں، لیکن اب سعودی اور پاکستان کے سویلین حکام کے پاس موقع ہے کہ وہ ان ہینڈ آؤٹس کو رد کر دیں۔”