سعودی عرب شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بن گیا

166

سعودی عرب کی چین سے طویل المدتی شراکت داری کا آغاز ہو چکا ہے اور سعودی کابینہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بننے کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی عرب نے ایک میمورنڈم پر دستخط کیے ہیں جس میں اسے شنگھائی تعاون تنظیم میں مذاکراتی پارٹنر کا درجہ دیا گیا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم چین، روس، بھارت اور پاکستان سمیت یورپ اور ایشیائی ممالک کا سیاسی اور سیکیورٹی اتحاد ہے۔

اسے 2001 میں روس، چین اور وسط ایشیا میں سابق سوویت یونین کے ممالک نے قائم کیا تھا اور بعد میں اس کو وسعت دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو بھی اس اتحاد کا حصہ بنا لیا گیا تاکہ خطے میں مغربی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا مقابلہ کیا جاسکے۔

گزشتہ سال ایران نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت حاصل کرلی تھی۔

ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ دسمبر میں چینی صدر شی ژن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے دوران شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بننے کے حوالے سے دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان مشاورت ہوئی تھی۔

سعودی عرب کو مذاکراتی پارٹنر کا درجہ دینا مکمل رکنیت کی جانب پہلا قدم ہے اور کچھ وقت بعد انہیں مکمل رکنیت بھی دے دی جائے گی۔

یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب سعودی آرامکو نے ایک مشترکہ منصوبے کے ذریعے چین میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اور نجی طور پر کنٹرول کیے جانے والے پیٹرو کیمیکل گروپ کے شیئرز بھی حاصل کر لیے ہیں۔

سعودی عرب کے ہر گزرتے دن کے ساتھ چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات پر اس کے پرانے اتحادی امریکا نے سیکیورٹی تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اثرورسوخ حاصل کرنے کی چین کی کوششوں کے باوجود مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر سیکیورٹی ضمانت دینے والے امریکا کے انخلا پر سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا اور اسی وجہ سے دوسرے پارٹنرز تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے۔

اس تمام تر اتار چڑھاؤ کے باوجود امریکا کا اصرار ہے کہ وہ خطے میں متحرک شراکت دار کے طور پر رہے گا۔

شنگھائی تعاون تنظیم سے تعلق رکھنے والے ممالک رواں سال روس کے علاقے چیلیابنسک میں مشترکہ انسداد دہشت گردی کی مشقیں کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔