زاہد بلوچ کی گمشدگی کے نو سال اور ہماری پالیسیوں پر ایک نظر ۔ سفرخان بلوچ (آسگال)

546

زاہد بلوچ کی گمشدگی کے نو سال اور ہماری پالیسیوں پر ایک نظر

سفرخان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک آزادی کے جدوجہد میں قربانیوں کے ایسے داستان رقم ہوئے ہیں جنکی تمثیل کہیں نہیں ملتی، وہیں ہم اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں پہ نظر دوڑائیں تو انکی بھی نظیر نہیں ملتی، انہی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے آج کاروان آزادی کے کئی قابل ساتھی ریاست کے تاریک زندانوں کے نذر ہوئے ہیں۔

دو دہائیوں سے جاری جبری گمشدگی اور بلوچ سیاسی کارکنان کے قتل عام کی پالیسی کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ یہ پالیسی بلوچ قومی تحریک آزادی کو کاونٹر کرنے کی کوشش ہے۔

اس پالیسی کی وجہ سے ہمارے کئی سرکردہ رہنما شہید ہوچکے ہیں اور سینکڑوں جبری گمشدہ ہیں جن کے بارے میں یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ زندہ ہیں یا شہید کردیے گئے ہیں اور وہیں ہم اس پالیسی کے خلاف کوئی مضبوط حکمت عملی بنانے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے رہنماوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ہیں۔

بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ، وائس چیئرمین زاکر مجید، بی این ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد ،غفور بلوچ سمیت اس جدوجہد کے دورانیہ میں ہمارے کئی رہنما اور سیاسی سنگت جبری گمشدہ ہوئے۔

چیئرمین غلام محمد، چیئرمین سنگت ثناء سمیت سینکڑوں رہنما جبری گمشدگی کے بعد شہید کردیئے گئے ہیں۔ اور جب تک تحریک آزادی جاری ہے یہ تسلسل بھی رکنے والا نہیں ہے مگر جبری گمشدکیوں کے خلاف جسطرح ردعمل دینے کی ضروت تھی یا ہے، میری رائے میں ہم نہیں دے پائے ہیں اور ناہی ایسے ردعمل دے رہے ہیں۔

قومی تحریک آزادی میں سیاسی سرگرمیوں کے عروج کے زمانے میں ہمارے رہنما اور سیاسی کارکناں پاکستان فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار بنتے رہے لیکن ہم ریاستی پالیسی کو سمجھنے سے قاصر رہے اور سیاسی کارکناں کو بچانے کے لئے پالیسی مرتب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

شہید واجہ غلام محمد ساتھیوں سمیت جبری گمشدہ کیے جاتے ہیں اور پھر مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اب پاکستان اس پالیسی پر تیزی سے عمل درآمد کرے گا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس حوالے سے ہم ایک جامع پالیسی تلاش کرتے لیکن ہم اس کے بجائے قیاس آرائیوں پہ زیادہ زور دے رہے تھے کہ غلام محمد اور ساتھیوں کو اس لئے شہید کیا گیا ہے کہ بلوچ مسلح تنظیم جزباتی ہوکر ردعمل کے طور پر جان سلوکی کو مار دیں۔ اب یہاں سے ہم اپنے سیاسی پختگی اور ناپختگی کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔

ایک سیاسی دوست کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کے جبری گمشدگی اور مارو پھینک دو کے پالیسی کو سمجھ نہیں پارہے تھے اور جب تک ہم سمجھ چکے تھے تو پانی سر سے اوپر اٹھ چکا تھا اور بلوچ قوم اپنے قابل ترین رہنماؤں سے محروم ہوچکا تھا۔

میرے سیاسی دوست کے بقول جب دوہزار دس اور گیارہ کے درمیان، میں نے بی ایس او آزاد کے ایک مرکزی رہنما سے پوچھا کہ ہم کونسل سیشن کیوں نہیں کررہے ہیں؟ تو مرکزی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم انتظار کررہے ہیں جب ذاکر مجید بازیاب ہونگے تو ہم کونسل سیشن کریں گے۔ یہاں یہ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ جب ہمارے رہنما جبری گمشدہ ہورہے تھے اور اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی تھیں تب بھی ہم پاکستان کے پالیسیوں کو سمجھنے سے قاصر تھے۔

ان چیزوں کے باوجود اتنے گھمبیر حالات میں بھی زاہد بلوچ کوئٹہ آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد بی ایس او آزاد تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرتی ہے اور تادم مرگ بھوک ہڑتال کو کس بنیاد پر مکمل کرنے کے بجائے آدھا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو نو سال مکمل ہوچکے ہیں، زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف جسطرح کا ردعمل دیا گیا پتہ نہیں اُسے میں شعوری ردعمل سے تعبیر کروں یا جذبات میں لئے گئے فیصلے سے ؟ یہ اب بھی سوالیہ نشان ہے۔

کیا تادم مرگ بھوک ہڑتال آدھا ادھورا چھوڑ کر ہم نے ریاست کو انجانے میں یہ پیغام نہیں دیا کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہیں ہم کر چکے ہیں اور اب ہم میں اس سے بڑھ کر کچھ کرنے کی سکت باقی نہیں ہے اب ریاست کی مرضی زاہد کے ساتھ جو کچھ کرے؟

فیصلہ لینے سے پہلے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اُس کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں اور انہیں مدنظر رکھ کر ہمیں فیصلے کرنے چاہیے لیکن بی ایس او کی قیادت نے جذبات میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کا فیصلہ لیا تھا۔

احتجاجی سلسلوں کا آخری اسٹیج تادم مرگ بھوک ہڑتال اور خود سوزی ہوتے ہیں اور اس کے بعد احتجاج کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔

زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پر ایک نیم جاندار تادم مرگ بھوک ہڑتال کا فیصلہ لیا گیا، اس سے زاہد بازیاب تو نہیں ہوئے مگر زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے نیم زندہ احتجاج نے موثر احتجاج کے باقی تمام راستے مسدود کردیئے۔

اگر زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے اس وقت احتجاج کے تسلسل کو جاری رکھتے تو ناصرف زاہد بلوچ کے منظر عام پر آنے کے امکانات موجود تھے بلکہ مارو پھینک دو یا جبری گمشدگی کو جاری رکھنے میں پاکستان کو مشکلات پیش آسکتے تھے کیونکہ ظالم کے ظلم کو ہمیشہ شدید مزاحمت سے ہی کمزور کیا جاسکتا ہے۔

تادم مرگ بھوک ہڑتال کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے بی ایس او کے کارکنان تیار تھے لیکن بند کمروں میں چند لوگوں کے لیے گئے فیصلے سے زاہد بلوچ کی بازیابی کی تحریک کو نقصان ہوا اور ریاست پر بھی یہ بات آشکار ہوئی کہ ہم انتہائی قدم لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

آج اگر کوئی یہ دلیل دے گا کہ فلاں فلاں شخص کے کہنے پر تادم مرگ بھوک ہڑتال ختم کی گئی تھی لیکن اُس وقت کے بی ایس او کے قیادت سے کوئی پوچھنے کی جسارت کرے کہ کیا آپ لوگوں نے فیصلہ لینے سے پہلے فلاں فلاں شخص سے مشورہ کیا تھا؟ جو اُن کے کہنے پر تادم مرگ بھوک ہڑتال ختم کردی؟

کیا بی ایس او کے قیادت نے پہلے دانشوروں یا بزرگ رہنماوں کے مشورے سے فیصلہ لیا تھا؟ اگر مشورہ نہیں کیا گیا تھا تو ختم کرنے کو اُن سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ غلط فیصلوں کو ہم ہر وقت دوسرے کے سر تھونپتے ہیں؟ یہ تمام سوالات اب بھی مضبوط انداز میں اپنے جگہ پہ موجود ہیں۔

بی ایس او کی اس وقت کی قیادت اب بھی اپنے غلط فیصلوں کی دفاع کرتی ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ قومی سیاست کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ یہاں اِن پالیسیوں پر بات کرنے کا مقصد کسی پر بےجا تنقید نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے غلطیوں سے سیکھ کر سخت فیصلے لینے ہوں گے ۔

آج بھی اگر ہم یہی چاہتے ہیں ہم پاکستان کے مظالم کا جواب دیں تو اس کے لئے شدید ردعمل دینے اور مزاحمت کی ضرورت ہے، جب تک ہم شدید ردعمل نہیں دینگے اور مزاحمت نہیں کرینگے تو پاکستانی مظالم جاری رہینگے اور ہمارے رہنما اور سیاسی کارکنوں اسی طرح جبری گمشدہ ہوتے رہیں گے ۔

ہم اگر پاکستان کے پالیسوں کو مکمل روک نہیں سکتے لیکن ہمارے سخت ردعمل سےریاست کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتے ہیں اور ہمیں فیصلہ لیتے وقت اس کے اثرات اور انجام کے بارے میں پہلے سے باخبر ہونا ہوگا جس سے ہم نقصانات کو کم کرسکیں گے اور سیاسی کارکنان کو محفوظ رکھ سکیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں