بلوچ نوجوان اور خواتین جبری گمشدگیوں کے شکار ہورہے ہیں۔ ماما قدیر بلوچ

255

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا طویل احتجاجی کیمپ آج 4973 ویں روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری رہا۔

اس موقع پر مستونگ سے سیاسی و سماجی رہنماؤں فقیر محمد بلوچ، محمد انور بلوچ اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

اس موقع پر تنظیم کے وائس چئرمین ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی جدوجہد کی پاداش میں ہمارے سیاسی کارکنوں کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے اور یہ سلسلہ آئے روز شدت کے ساتھ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوان اور خواتین کو ریاست جبری گمشدگی کا شکار بنا رہی ہے لیکن بلوچ ہر وقت اپنے شہیدوں اور جبری لاپتہ افراد کو یاد کرتے آرہے ہیں جو ان کے حوصلہ سے ظاہر ہو رہا ہے لیکن دشمن کی تشدد میں روز اظافہ ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا جیسے کہ پہلے بھی جبری اغوا نما گرفتاری کے بعد ان کے تشدد شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دیے جاتے تھے۔

ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں ظلم و جبرپاکستان کر رہی ہیں شایدہی دنیا کے کسی محکوم پر ہوا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہمیں اچھی طرح خبر ہونی چاہئے کہ بلوچ انصاف اور انسانیت کی خاطر پر امن جدوجہد میں مصروف عمل ہے تمام بلوچ تشدد سہہ کر صرف اپنے مستقبل کو خوشحالی کے لئےجدوجہد کر رہی ہے۔ بلوچستان میں فوجی کارروائی کوئی نئی بات نہیں اس سے ہر وہ ایک واقف ہے جو بلوچستان کی حالات پر نظر رکھی ہے بلوچستان میں ایسے علاقے نہیں جہاں فوجی آپریشن کے زد میں ہے عوام پر فوج کی تشدد ہو رہی ہے ہر روز یہ ضرور سننے کو ملتا ہے۔