جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4974 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر قلات سے بی این پی کے کارکن دستگیر بلوچ، محمد خان بلوچ سمیت دیگر مکاتب طبقہ فکر کے لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچوں کا وحشیانہ قتل ریاستی اداروں اور انکے گماشتوں کی بربریت کی مثال ہے اور انکی شیطانی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ان کا قتل کا طریقہ واردات دراصل قتل کے محرکات کو چھپانےاور اپنے آپ کو اس گھناؤنے فعل سے بری الذمہ دینے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ ریاست کا ہر ایک ادارہ بلوچ نسل کشی کو ایک دوسرے کے سر تھونپ کر اپنے آپ کو بری الذمہ قراردینے دینے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فعل میں کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ پورے کا پورا ریاستی ڈھانچہ ملوث ہے مگر دوسری جانب پاکستانی پولیس عدلیہ اورپارلیمنٹ کے اعتراف کے باوجود بھی اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی اوران کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔
یوم خواتین کے مناسبت سے انہوں نے کہا کہ بلوچ عورت نے ریاستی جبر کے سامنے بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف ان بہادر ماؤں اور بہنوں کی جدوجہد تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔