بلوچستان یا جیل خانہ
تحریر: برکت مری
دی بلوچستان پوسٹ
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کرکے بلوچستان جیل بھیج دیں گے اور گزشتہ روز خود سابق وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا کے سامنے خود اعتراف کیا ہےکہ موجودہ حکمران مجھے گرفتار کرکے بلوچستان منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کو بلوچستان منتقل کرنے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے بہت سے لوگ پریشان ہیں یہ پسماندہ بلوچستان اچانک وفاقی حکومت و اپوزیشن کو کیسے یاد آیا کہ بلوچستان ہے بلوچستان انگریزوں کے دور میں بھی جیل خانہ تھا اور آج بھی جیل خانہ ہے۔ انگریزوں کے دور میں انڈیا جیل کالا پانی کے بعد سب سے بڑا دوسرا جیل بلوچستان میں مچھ جیل ہے۔ جہاں انگریزوں کے دور میں آزادی پسند ملازموں کو یہاں لاکر جیل کرکے ان پر شدید تشدد کیا کرتے تھے۔ آج اسکی اتنی ضرورت و اہمیت رہی ہے کہ صاحب اقتدار اپنی انتقام کی آگ کو بلوچستان کی جیل میں بجھا سکیں۔ وفاق کیلئے بلوچستان انکی سیاسی انتقام کا جیل ہوسکتا ہے لیکن بلوچستان انکی ذہن و گمان میں ایک ترقی یافتہ صوبہ نہیں ہوسکتا ہے۔
تعلیم صحت روزگار انٹرنیٹ بجلی پانی دوسرے صوبوں کا خیال سیاسی عسکری تجربے کیلئے بلوچستان چنا جاتا ہے انہیں کیا انہیں معلوم نہیں کہ بلوچستان کا ہر گھر یہاں کے رہنے والے لوگوں کیلئے کالا پانی یا مچھ جیل سے کم نہیں ہے جہاں پانی صحت تعلیم ایشیا زندگی کی ضروریات یکسر میسر نہ ہوں وہ جیل نہیں تو اور کیا ہے ایسا کوئی گھر نہیں جہاں ماتم نہ ہو لوگ غائب نہ ہوں حکمران کس جیل کی ذکر کو لے کر اپنی انتقام کی طاقت کو شاخسانہ جامہ پہناکر خود کسی فلم کی تگڑا ولن بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ جیل جہاں بلوچ قومی لیڈروں کو گرفتار کرکے انہیں شدید سزائیں دی جاتی تھیں وہ لیڈر جو بلوچ قومی حقوق کی تحریک کے سرخیل قوم کی مظلومیت بلوچستان پر جبر کے خلاف تھےوہ لیڈر جو جھکے بکے نہیں تھے وہی مچھ جیل، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں کے ذہنوں میں اب بھی کالونیت کی باقیات موجود ہیں۔
بلوچستان تجربہ گاہ مقتل گاہ کے ساتھ جیل گاہ بھی ہے ہاں یہ وہی جیل کی بات وفاقی وزیر داخلہ ثناء اللہ کررہے ہیں یہ جیل بلوچستان کی سب سے بدنام اور سخت سیکورٹی والی جیل مچھ ہے جو ضلع بولان کی تحصیل میں واقع ہے۔ یہ جیل 1928 میں انگریزوں نے قائم کی تھی اس جیل کے گیٹ نمبر 4 کے ساتھ قائم وارڈ نمبر 9 کا نام زمانے سے مرچی وارڈ پڑ چکا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اپنی سیاسی انتقام کو مزید تقویت دینے کیلئے انکا کہناہے کہ عمران خان کو گرفتار کیا تو انہیں مچھ جیل کے مرچی وارڈ میں رکھوں گا ، اس جیل میں بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل، صادق عمرانی اور معروف صحافی صدیق بلوچ ودیگر کئی فرزند بلوچستان بھی قیدی رہ چکے ہیں۔ یہ جیل کئی سالوں سے گمنام تھا اسی جیل میں 2015 میں ایم کیو ایم کے کارکن صولت رضا کو پھانسی دی گئی جو زیر لب آیا 2015 کے بعد 2023 میں ایک بار پھر مچھ جیل مرچی وارڈ خبروں کی زینت بن گئی ہے۔ اس جیل کا موازانہ بھارت میں موجود انڈمان جیل سے کیا جاتا ہے جسے کالا پانی بھی کہتے تھے بلوچستان میں واقع اس ”کالا پانی“ میں انگریز دور میں جنگ آزادی کے ملزم لائے جاتے تھے۔ ان قیدیوں کے کھانے میں مرچیں ملائی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وارڈ کا نام مرچی وارڈ پڑ گیا۔ ملک کس سمت جارہی ہے سیاستدان سیاسی رخ چھوڑ کر شدتِ انتقال کے داعی بن چکے ہیں ایک دوسروں کو نوچنے کی خطرناک سیاست جنم لے رہی ملک سیاست و ملک کی بہتری کیلئے حکومتیں نہیں بنتیں ہیں ملک کے سیاستدان سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھا کر اپنی سیاسی انتقام اپنی وجود و بادشاہت کو قائم رکھنے کیلئے اقتدار حاصل کرلیتے ہیں انکی حکومتوں کا مقصد اداروں پر قبضہ کرکے سرکاری مشینری اپنے مخالف کے خلاف استعمال کرکے انہیں نیست و نابود کرنامقصود بن گیا ہے۔ ملک اور ملک کے غریب عوام کس طرح زندگی بسر کررہی ہے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے غریب عوام کل بھی مشکلات سے گھرا تھا اور آج بھی ہے غریب کل بھی کورونا وائرس مہنگائی کی تباہی کا سامنا کررہے تھے مختلف ممالک سے ملنے والے فنڈز آئے لوٹ مار ہوئے کچھ نہیں ہوا آج بھی سیلابی طوفان آئی کھربوں ڈالر ہڑپ ہوئے ملکی مہنگائی صحت کی حصول کیلئے مرکر آج بھی غریب عوام زندہ ہیں جس عوام کی حقوق کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کی جاتی ہے وہ یہی غریبوں کا مقدر آج بھی نعرہ بن گئے ہیں ان جماعتوں کو نہ عوام عزیز ہے نہ ملک کا فکر ہے آج سعودیہ عرب امارات میں دیکھیں ایسا کوئی پاکستانی نہیں جنہوں نے سعودی میں بڑے بڑے پر تحاشا کالونی نہیں بنائے ہیں۔
عسکری قیادت سے سول و سیاسی قیادت تک سبھی نے اپنی بساط کے مطابق ملک کو لوٹ کر جائیدادیں بنائی ہیں ہر کوئی اقتدار میں آتا ہے تعمیر وترقی کے نام خود کی تعمیر پر لگ جاتا ہے مخالفت کرنے والوں کیلئے صبح وشام انتقامی نقظہ نظر تیز دھار خنجر ڈھونڈتے ہیں کیسے مخالفت کے پیٹ میں گھونپ کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرکے تن تنہا لوٹ مار کی جاسکے افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے سب سے پسماندہ ترین صوبہ وفاقی حکومت و اس ملک کے بالا دست قوتوں کو صرف بلوچستان کے جیل معدنیات ساحل وسائل یاد آتے ہیں وہ انکے لئے فکر مند ہیں انہیں بلوچستان کے عوام کی زندگی سے انکے جینے مرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج بلوچستان کے لوگ پیناڈول کیلئے پاؤں کی ایڑیاں زمین پر رگڑ رگڑ کر بے موت جان دیتے ہیں تعلیم پانی بجلی ودیگر بنیادی ضروریات کا وفاق کو سدھ وسماء تک نہیں پورے بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کاروباری شخصیت اس جدید دور میں بھی صرف چند ڈسٹرکٹ کے علاؤہ بلوچستان کے تمام ڈسٹرکٹ انٹرنیٹ ڈیٹا تھری جی فور جی ڈی ایس ایل سے دانستہ طور پر محروم ہیں جس ملک و سماج میں برابری نہ ہو جہاں مسائل کا حل طاقت سے ہو جہاں مسائل کو بہانا بنا کر عوام کو سہولتوں سے انہیں دور رکھا جائے جہاں قوموں کے درمیان تعصب ہو تو اس سماج میں کالونیت تباہی نفرت تعصب کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے وہاں رشتے بنتے نہیں ٹوٹ جاتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں