بلوچستان رياستی عتاب کا شکار ہے۔ ماما قدیر بلوچ

149

بلوچستان میں سیاسی کارکنوں، طلباء اور دیگر مکاتب فکر کی بلوچ جدوجہد کی پاداش میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4968 دن بھی جاری رہا۔

اس موقع پر بی ایس او کے چیئرمین جہانگیر بلوچ، سینئر وائس چیئرمین محمّد اشرف بلوچ اور کابینہ کے دیگر رہنماؤں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ماہ فروری میں بھی مقبوضہ بلوچستان رياستی عتاب کا شکار رہا ہے ، ویسے تو کوئی دن نہیں تھا جس دن کوئی بری خبر نہ سنی ہو کہ آج ریاست نے اپنے ہاتھ کو بلوچ کے خون سے رنگنے سے روک لیا ہو ۔

انہوں نے کہا کہ پورے ماہ میں اگر کسی جگہ کسی بلوچ فرزند اغوا کیا گیا تو کسی دوسری جگہ مسخ شدہ لاش ملنے کی خبر گردش کرتی رہی ہر صبح اٹھتے ہی دن کی ابتدا اور اختتام رياستی مظالم سے ہوتا رہا ریاست نے نئی حکمت عملی لاتے ہوئے اس ماہ میں ایک تو بلوچ خواتین کو اغوا کرنا شروع کر دیا تو دوسری طرف تمام مسخ شدہ لاشوں کو مختلف علاقوں میں پھینکنا شروع کیا ہے پاکستان بلوچ پرامن جدجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مزید شدت لاتے ہوئے اپنی کار رواںٔیوں میں انتہائی تیزی لایا ہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ تمام جبری لاپتہ اسیران کی عدم بازیابی کے خلاف اور اقوام متحدہ کی خاموشی اور ان کی متوجہ کرنے کے لئے لاپتہ بلوچ اسیران جو یقیناً بلوچ کا عظیم سرمایہ ہیں باحفاظت واپسی کے لئے بلوچستان بھر میں پرامن جدجہد جاری ہے اس کا مقصد بلوچ جبری لاپتہ افراد کے معاملے بلوچستان میں پاکستانی افواج کے مظالم کو عالمی دنیا کے سامنے لانا ہے اور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے کہ وہ بلوچ نسل کشی کا نوٹس لے آج 55000 ہزار سے ساٹھ ہزار بلوچ نوجوان پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں جن کو روزانہ کی بنیاد پر تشدد کرنے کے ذریعے شہید کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کے کان بہرے ہوگئے ہیں یہ استحمار کی آواز ہے یہ حاکم کی آواز ہے غاصب کی آواز ہے قابض کی آواز ہے اس سے توقع نہیں رکھنا چاہئے۔