اس ملک کے غدار کون ہیں ۔ برکت مری
تحریر: برکت مری
دی بلوچستان پوسٹ
جب ہم ملکی سیاست کو دیکھتے ہیں یہ تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ملک کا اصل وفادار کون ہے اور ملک کا غدار کون ہے۔ 2013 میں جب مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر ملک کے وزیر اعظم بنے تو ملک کے دوسرے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم پاکستان، مسلم ق کے ساتھ علامہ قادری ودیگر اکھٹے ہوکر انہوں نے نواز شریف کی حکومت کو ملک دشمن، ملک کا غدار قرار دیا انہوں نے باقاعدہ ملک گیر تحریکیں چلائیں کنٹینر پر کنٹینر لگائے ملکی معیشت کو تباہ کن معیشت قرار دینےوالے اسی معیشت پر رونے والوں نے ہر جلسے جلوس پر پیسوں کی برسات کی، کارکنوں کی ریٹنگ سے پینافلکس کی سجاوٹ تک اربوں روپے پانی کی طرح بہائے یہ پیسے کہاں سے آئے یہ وہی پیسے ہیں جو غریبوں کی ٹیکسوں سے ملکی خزانے میں جمع ہوئے اور انہوں نے بے دریغ لوٹے۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ کنٹینر پر وہ تمام چہرے یک بہ یک موجود تھے جو آج پی ڈیم ایم کی صورت میں ہیں انکی تصویر آج بھی آن دی ریکارڈ ہیں صرف اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کی تصویر میں نہیں تھی تمام جماعتوں نے مسلم لیگ ن کو ملک کا غدار ملک کا دشمن قرار دیا جب 2018 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تو پھر رفتہ رفتہ احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا پھر وہی ہوا جو گزشتہ دور حکومت کے ساتھ ہوا کل آل پارٹیز آج پی ڈی ایم بنی پھر مہنگائی مارچ عوام بچاؤ ملک بچاؤ کی تحریکیں شروع ہوئیں۔
کل اور آج میں صرف پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کی تصویر میں فرق ہے جمعیت پی پی پی نے نواز شریف کو ملک دشمن قرار دے دیا آج انکے ساتھ حکومت کے مزے کررہے ہیں۔ آج نواز شریف ملک دوست ہے کل غدار تھا کل پی ٹی آئی والے ملک کے رکھوالے تھے آج غدار ہیں۔ ایسی کوئی جماعت نہیں ہے کہ جنہیں اپوزیشن نے ملک کا غدار نہ کہا ہو بے چارے عوام کل ادُھر زندہ باد مردہ آج اس حکومت کے ساتھ زندہ باد مردہ کل اس حکومت کے ساتھ مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے آج اس حکومت کے ساتھ شدید مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے نہ کل غریبوں کی تقدیر بدلی نہ آج ان غریبوں کی تقدیر بدلا ہے کبھی غدار کبھی وفادار کے نام پر امیر امیر تر ہوئے غریب آج بھی دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے رقبے والا و معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان کی سرزمین سے لیکر بلوچستان کی سیاست ہر دور میں تجربے کا مرکز رہا ہے کبھی ایٹمی پروگرام کے تجربہ گاہ کبھی سیاسی تجربہ گاہ اس قدر سیاسی انجینئرنگ کی گئی ہے کہ جو شخص ہر سال پارٹی بدلتے رہتے ہیں وہی ہر اسٹیجوں پر سیاسی نظریے کا راگ الاپتے ہیں جو پارٹی کے آئین و منشور کی بات کرتے ہیں وہ خود نہیں جانتے کہ آئین و منشور کیا ہے گزشتہ سال 2018 کے الیکشن سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی (باپ ) یکدم منظر عام پر آیا نیشنل پارٹی بی این پی عوامی بی این پی مسلم لیگ ن و ق پی پی و پشتون جماعتوں کے نمائندوں نے حکم اعلیٰ کے پیغام پر باپ پارٹی جوائن کرنا شروع کیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے اس سلسلے پر رشک کرتے ہوئے ہر سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی جلسے جلوس مجالس دیوانوں میں باپ کو مختلف ناموں و مسخروں طنزسے اسکی خاطر تواضع کی جائز وناجائز کے القابات سے گریز نہیں کیا۔ مخالفین مخالفت کرتے رہے اور باپ میدان میں آتے ہی چھاگیا ایوان بالا کے 104 میں سے 11 نشست قومی اسمبلی میں 5 صوبائی اسمبلی کے 65 میں سے 24 سیٹیں حاصل کرکے بلوچستان میں حکومت بنانے کیلئے اکثریت میں رہی۔ وہ کل جو باپ کو ناجائز اس پر مسخرے کررہے تھے آج وہی انکے ساتھ حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں، مختلف مراعات بٹور رہیں ہیں۔ آج وہی باپ کو جائز و قوم دشمن مقتدر قوتوں کی جماعت کہہ رہے تھے کل ان سے سیاسی وابستگی کو بلوچ قوم کے ساتھ غداری سمجھتے تھے آج اپنے اقتدار کی خاطر دس بارہ دن اکھٹے باپ کے گھر میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے احتجاجی صورت میں گزارے انہیں دیکھ کر یہی اخذ ہوتا ہے آج بلوچستان میں جس سیاسی تقسیم در تقسیم کا دور ہے وہ قوم پرستی کیلئے نہیں بلکہ سیٹ پرستی پیٹ پرستی کیلئے ہے۔ ہر کسی نے ڈیڑھ انچ کی مسجد اپنی پیٹ کی بقا کیلئے بنائی ہے انکی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے بلوچستان آج بھی سیاسی تجربہ گاہ کا مرکز رہا ہے۔
آج بھی بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ انہی پیٹ پرستوں کی وجہ سے ہورہی ہے انہی موقع پرستی کی وجہ سے ستر سالوں سے بلوچستان میں اصل قومی ایشو حل نہیں ہورہے ہیں۔ اگر ان سے کوئی مسلہ حل ہوا ہے وہ ٹھیکداری نظام ہے جس کا پرسنٹ ٹھیکدار سے وزراء اور ان کو ملے ہیں جنہوں نے سیاسی انجنئیرنگ کی ہے لیکن غریب عوام کے بنیادی سہولت و ضروریات انہیں نہیں ملے۔
آج بھی لاپتہ افراد بازیاب ہوئے نہ ان کیلئے قانون سازی ہوئی کل اقتدار کے حصول کی خاطر ناراض بلوچ تھے آج اقتدار میں آتے ہی ناراض بلوچ دہشتگرد بلوچ ہوئے انہیں ایجوکیشن صحت ملی نہ روزگار ملی اگر انہیں ان قوم پرستوں سے ملی ہے تو وہ مہنگائی کی صورت میں ملی ہے کورونا وائرس آئی، سیلاب آئی، غریب عوام کی جان بھی گئی سر کا چھت بھی گیا۔ ریاست کی زمہ داری تھی انکی جان ومال کی حفاظت کرتے انہیں ملک اپنے خزانے سے مدد کرتے وہ زمہ داری تو دور انہوں نے دیار غیر کے بھیک بھی ہڑپ لئے نہ کورونا وائرس کے معاوضے ملے نہ سیلاب کے بھیک غریبوں کو ملی متاثرین کو ملنے والے آج بھی امدادی سامان وزراء کے انباروں میں سڑ رہے ہیں۔ غریب آج بھی زندگی کی چیلنجوں سے نمٹ رہے ہیں اگر دیکھا جائے ملک کا اصل غدار یہی غریب لوگ ہیں جو ان سیاستدانوں کے چکنی چپڑی باتوں پر بھروسہ کرکے انکی خاطر اپنے رشتےداروں سے ناراض ہوکر اپنے لیڈروں کو دنیاوی خدا سمجھ کر انکے سامنے جے رام جے رام جی کرتے ہیں ملک کے اصل غدار یہی غریب ہیں جو انہیں جان کر بھی انجان ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں