یادِ آفتاب
تحریر: فرہاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج جب ایک دوست سے گفتگو ہورہی تھی تو بات ہی بات میں تیرا نام آیا۔ وہ دوست جذباتی ہوکر کہنے لگا یار کیا تمہاری ملاقات کبھی آفتاب سے ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں اتنا نصیب والا نہیں رہا کہ آفتاب جیسے عظیم سوچ و نظریے کے مالک سے کبھی ملاقات ہوسکتا۔
وہ سنگت درد بھری مسکراہٹ سے کہنے لگا تمہیں پتا ہے کہ آفتاب سے کچھ وقت پہلے میرا بہت ہی عظیم سنگتی کا رشتہ بنا تھا لیکن افسوس میں اتنا نہ سمجھ سکا کہ وہ اتنا عظیم سنگت ہے۔ آفتاب بہت ہی مہروان تھا۔ ہر بلوچ سے بے انتہا مہر کرتا تھا۔ مجھے بھی پہلی بار ایک پروگرام میں دیکھ کر اپنا سمجھ کر، بلوچ سمجھ کر میرے ہاتھ پکڑ کر چومنے لگا اور کہنے لگا سنگت یہ ہماری رسم ہے۔
میں آفتاب سے اتنا واقف نہ تھا۔ صرف ایک موبائل کے ذریعے کچھ حال احوال ہوا تھا اور ایک رات چار بجے کے وقت میں نے اس کو موبائل پے سلام کہا۔ میں نے سوچا شاید اس وقت وہ سورہا ہوگا۔ لیکں اس نے فوراً جواب دیا۔ میں حیران ہوگیا، میں نے مذاق میں کہا سنگت آپ سرمچار تو نہیں جو اتنا بیدار ہو، اس نے ہلکا سا ہنستنے ہوئے کہا “میں ایک ناچیز کہاں اتنا عظیم ہوسکتا ہوں۔ بس دنیا کے غم سونے نہیں دیتے۔”
وہ سنگت کہہ رہا تھا کہ مجھے تو آفتاب پر شک بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اسلام آباد جیسے ماحول میں بھی وطن کا درد اپنے دل میں لئے ہوئے ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ آفتاب کبھی پہاڑ جیسے جگہے پر ایک منٹ بھی رہ سکے گا۔ آفتاب جس نے اپنی زندگی آسودگی سے گزارا ہو اور وہ جاکر بولان میں پہاڑوں میں بھوکا، پیاسا، پھٹے ہوئے کپڑوں میں سالوں سال گزار دے۔
آج جب آفتاب کو بولان کی آنگن میں سوتے دیکھتا ہوں تو یقین مانو کہ آفتاب کے قدموں کی نیچے جو مٹی ہیں اُنکو سجدہ کرنے کو دل کرتا ہیں۔ اُس زمین کو بوسہ کروں جہاں آفتاب جیسے عظیم بلوچوں نے اپنے قدم رکھے ہونگے۔
اُس سنگت کی اس مہر بھری اور آفتاب سے مہر کو دیکھ کر میرے بھی آنکھیں نم ہوگئے۔ نم اس لیے ہوئے کہ قُدرت نے مُجھ جیسے ناچیز کو کیوں اسطرح کی عظیم بلوچوں کی دیدار نصیب نہیں فرمائی اور اُس سنگت کے بقول کہ جنگ میں صرف یادیں رہ جاتے ہیں۔
آفتاب جیسے سنگتوں کے اب صرف یادیں رہ گئے ہیں۔ آفتاب آج ہر محفل میں یاد ہوتا ہے۔ آفتاب آج ہر سرکل میں یاد ہوتا ہے۔ آفتاب آج ہر گدان میں یاد ہوتا ہے۔ آفتاب آج مرید کی شاعری بن چکی ہے۔ میر احمد کی آواز آفتاب کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ آفتاب ایک تاریخ بن چکی ہے اور تاریخ خود کو ہمیشہ دہراتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں