کراچی: محمد رحیم زہری اور زمان بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج

200

بدھ کے روز کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے محمد رحیم زہری، زمان بلوچ سمیت دیگر بلوچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

جس میں کثیر تعداد میں انسان دوست افراد نے شرکت کرتے ہوئے بلوچستان میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔

مقررین نے بلوچستان میں ہونے والے جبری گمشدگیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دو دہائیوں سے جاری ہے اور اب سیکورٹی فورسز کی طرف سے بلوچ عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنانا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ایک گھر سے کسی بلوچ عورت کو اٹھا کر جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی پنجگور، کراچی، ڈیرہ بگٹی، دشت، تربت، خاران سمیت بلوچستان کے طول و عرض میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جہاں بلوچ عورتوں کو تشدد، جبری طور گمشدہ اور حتیٰ کہ قتل بھی کیا گیا ہے۔

مقررین نے کہا کہ اسی طرح 3 فروری کو کوئٹہ کے علاقے میں گھر پر چھاپہ مار کر سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں نے رشیدہ زہری، ان کے شوہر رحیم زہری سمیت ان کے بچوں اور والدہ کو جبری طور پر لاپتہ کیا، بعدازاں والدہ سمیت بچوں کو رہا کیا گیا اور آج رشیدہ زہری کو بھی رہا کیا گیا لیکن رحیم تاحال لاپتہ ہے۔ جن کے خاندان اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی طرف سے کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جہاں سپریم کورٹ کے معزز ججز سے نوٹس لینے اور انہیں رہا کرنے پر زور دیا گیا۔ اسی طرح تربت سے نوجوان زمان ولد سپاھان بلوچ جنہیں جون 2020 میں جبری طور پر لاپتہ کر کے چھ ماہ بعد رہا کر دیا گیا تھا اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کی طرف سے ان پر ناقابل برداشت تشدد کیا گیا تھا جنہیں 10 فروری 2023 کو دوبارہ تربت شہر جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔

زمان بلوچ کے لواحقین نے کہا کہ ان کے خاندان کو مختلف طریقوں سے ہراسگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور زمان کو اغواءکرنے کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کے گھر میں تھوڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ اسی واقعے کے خلاف زمان بلوچ کے اہل خانہ نے رات گئے ھوشاب تربت کے علاقے میں سی پیک روڈ کو احتجاجاً بند کردیا۔

مقررین نے کہا کہ فروری 3 اور 10 کو پیش آنے واقعات اپنی نوعیت کے حساب سے نئے واقعات نہیں ہیں۔ بلوچ عورتوں پر تشدد اور انہیں اغواءوقتل کرنے کے واقعات بلوچستان میں مختلف اوقات میں پیش آتے رہے ہیں لیکن ان واقعات میں ملوث افراد و اداروں کے خلاف کبھی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ بلوچ لاپتہ افراد کے معاملے میں کمیشن پر کمیشن بنائے گئے لیکن ابھی تک اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی بلکہ ایسے واقعات مزید زیادہ ہورہے ہیں اور لاپتہ افراد کے فیملیز پر تشدد، انہیں احتجاج سے روکھنا اور احتجاجوں پر فائرنگ اور لاٹھی چارج انہیں اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار کرنے کے آلات کے طور پر استعمال ہوتے ہیں جس کی حالیہ مثال زمان بلوچ کے جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج پر پولیس کی بلاجواز فائرنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کے ساتھ اجتماعی طور پر ایسا رویہ رکھا جارہا ہے کہ وہ ایگ گروہ کے طور پر زیر ہے اور بنیادی انسانی حقوق تک رسائی اس کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ بلوچ روایات کی خلاف ورزیاں ہو یا جبری گمشدگیاں، آپریشنز، بلوچ کے املاک کی توڑ پھوڑ و ان کو آگ لگانا یا ایک روٹی کے ٹکڑے کے لیے بلوچ ڈرائیوروں کا پیاس سے مرجانا۔ یہ تمام واقعات بلوچ اجتماعی نفسیات کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ایک نوآبادی سماج میں زیر تسلط گروہ ہے اور اس کے لیے لازمی امر اس لاقانونیت و درندگی کے خلاف مزاحمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی تمام بلوچ قوم سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر اپنا بلوچی و انسانی فرض ادا کریں۔