پیپلز ہسٹری آف بلوچستان جلد نمبر 2 قبائلی اور جاگیرداری عہد
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کتاب پیپلز ہسٹری آف بلوچستان کا جلد نمبر دو جس کا عنوان قبائلی اور فیوڈل عہد ہے. کتاب کے مصنف کا نام ڈاکٹر شاہ محمد مری ہے. زیر نظر کتاب کا پہلا ایڈیشن 1999 میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے شائع کیا جبکہ اس کتاب کے مذید تین ایڈیشن شائع کئے گئے ہیں. چوتھا ایڈیشن 2021 میں شائع ہوا.
اس کتاب میں تین ابواب پر مصنف نے اپنے قلم کو جنبش دی ہے جس کے کل اٹھارہ مضامین ہے.
پہلا باب قبیلہ کیسا ہوتا ہے جس میں پانچ مضامین شامل ہیں. دوسرا باب بلوچ مویشی بانی ہے جس میں دس مضامین شامل ہیں جبکہ تیسرا باب بلوچ ذراعت کے متعلق ہے جس میں تین مضامین پر مصنف نے قلم آرائی کی ہے.
پہلا باب جو قبیلے کے متعلق ہے جس میں قبیلے کی بنیاد ،اس کا تنظیمی ڈھانچہ،انفرادی بلوچ قبیلوں کا ذکر اور ان کا علاقائی اتحاد کے علاوہ بلوچ جنگی معشیت پر قلم آرائی کی گئی ہے_کتاب کے مطابق فرد کسی بھی قبیلے کا بنیادی اور نچلا یونٹ ہوتا ہے_یہ افراد مل کر ایک خاندان کی تشکیل کرتے ہیں پھر یہ خاندان مل کر ٹکر بناتے ہیں اور یہی ٹکر باہم اشتراک سے قبیلے کی بنیاد رکھتے ہیں-قبیلے کو ہم حکومت کی اولین صورت بھی کہہ سکتے ہیں انہی تشکیل کردہ قبیلوں نے ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دیا۔
شاہ محمد مری صفحہ نمبر انیس میں کہتے ہیں کہ جب کوئی قبیلہ فرد کو بہبود ،سیکورٹی کلچر اور ایک سیاسی نظام دینے کے قابل نہیں رہتا تو پھر وہ ختم ہوجاتا ہے ،کسی دوسرے قبیلے میں ضم ہوجاتا ہے یا پھر اگلے سماجی معاشی نظام میں داخل ہوجاتا ہے۔
اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو بلوچستان تاریخی حوالے سے ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن رہا ہے جسے نوری نصیر خان نے مرکزیت عطا کی ،بلوچ قوم کے ڈھانچے کو اگر دیکھا جائے تو وہ فرد ،لوگ،بولک،،زئی ،ٹکر،سیک اور قبیلہ ہے اور یہ قبیلے مل کر قوم کو تشکیل دیتے ہیں۔
اگر بلوچ قوم کی قبائلی نظام کے ڈھانچے کی بات کریں تو خاندان کا سربراہ جسے پیڑیں مرد کہا جاتا ہے جس کی عزت و تکریم کی جاتی ہے ،یہ غیر موروثی ہوتے ہیں جن کو کوئی مراعات نہیں ملتی،اسکے بعد وڈیرہ آتا ہے جو قبیلے کے ذیلی فرقے کا سربراہ ہوتا ہے ،یہ عہدہ موروثی ہوتا ہے – پھر سردار کا نمبر آتا ہے جو قبیلے پر اپنا اثر و رسوخ وڈیروں کے ذریعے برقرار رکھتا ہے-ان کے اپنے جیل ہوتے ہیں جہاں مخالفوں کو سزائیں دی جاتی ہے-بلوچ اپنے سردار کی بہت عزت کرتے ہیں ،ایک زمانے میں سردار موروثی عہدہ نہیں تھا بلکہ وہ قبیلے کا سب سے اچھا آدمی ہوتا تھا جس میں بلوچیت کی تمام خوبیاں شامل ہوتی تھی لیکن انگریزوں کی آمد نے اسے ایک موروثی عہدہ بنادیا -لفظ سردار بقول شاہ محمد مری کے ایک درآمد شدہ لفظ ہے اس سے قبل بلوچ سردار کے بجائے میر استعمال کرتے تھے-
صفحہ نمبر 28 میں شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ بلوچستان میں قبیلہ کا مطلب تھا سردار کے تحت مضبوطی سے گرہ دیا ہوا گروپ۔
باب اول کے مضمون نمبر تین میں انفرادی بلوچ قبائل کا ذکر کیا گیا ہے -شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ بلوچ اپنی شناخت کے بارے میں بہت حساس قوم ہے ،اس کا ہر فرد اور ہر قبیلہ خود کو اوریجنل،مقامی،معزز،محترم اور اصلی بلوچ قرار دینے میں سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار رہتا ہے،ہر کسی کو اگر اپنی برتری کا نہیں تو کم از کم دوسرے سے برابری کا یقین ضرور ہے-میں ،میرا دادا،میرا قبیلہ ،اس میں نے بلوچ کو تباہ بھی بڑا کیا مگر اسے بقاء بھی اسی میں نے عطا کی ،بس یہ میں ذرا ہم ہوجائے تو بلوچ قوم کے وارے نیارے ہوجائیں۔
صفحہ نمبر 29 اس باب میں کئی قبیلوں کا ذکر موجود ہے جو حروف تہجی کے اصولوں کے مطابق مرتب دئیے گئے ہیں-
انہی قبائل نے ایک علاقائی اتحاد کو جنم دیا ،بلوچوں میں ایسا کوئی قبیلہ نہیں جو کسی دوسرے قبیلے میں شامل نہ ہوا ہوُ اسی قبیلوی اتحاد نے جزوی طور پر ختم ہو کر جس نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی وہ ہے علاقائی اتحاد
پہلے باب کے پانچویں حصے میں بلوچ قبائلی جنگی معشیت کے متعلق مختصر ذکر کیا گیا ہے۔
جنگ کبھی بلوچ قوم کا پسندیدہ مشغلہ نہیں رہا لیکن سماجی ترقی کے مرحلے پر ایک انسانی مجبوری رہی،کئی عرصے تک جنگ بلوچوں کی معشیت کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔
شاہ محمد مری انگریز جنرل ڈائر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قبائل درحقیقت لوٹ مار پر گزارہ کرتے تھے-اولیور کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ کے مقابلے میں ذراعت بھی نیچ ہے اور آرٹ و فن کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے-لکھنے کا فن تو حقارت سے بھی نیچے کا درجہ رکھتا ہے -لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ معشیت کا وسیلہ ہمیشہ انسان کے لیے محترم رہا ہے-
بلوچ جب بھی جنگ کرتا تو مال غنیمت کی قمیت لگا کر لڑائی میں شامل افراد کو تقسیم کرتے تھے-مال کا پانچواں حصہ کمانڈر اور بقیہ جنگ میں شامل ہر فرد کا ایک حصہ ہوتا تھا-گھوڑے کا ایک حصہ،بندوق کا نصف حصہ ،جاسوس کے دو حصے ہوتے تھے اگر جاسوس مارا جاتا تو اس کا نصف حصہ اسکے رشتہ داروں کو ملتا تھا-جبکہ جنگ میں حصہ نہ لینے والے کے لئے ترکیر کا لفظی استعمال کرتے تھے-
جنگی قواعد و اصولوں کی پابندی بلوچ سختی سے کرتے تھے -بلوچ قوم کےجنگی اصول قدیم دور سے چلے آرہے ہیں ،وہ اتنے پابند تھے کہ انفرادی لڑائی میں حملہ آور کے لئے لازمی ہے دشمن کو للکار کر خبردار کرے تاکہ اسے دفاع کا موقع مل سکے-
صفحہ نمبر 92
خون کا بدلہ خون ہوتا ہے لیکن بلوچ مہمان کو ،سوئے ہوئے آدمی کو،قیدی کو ،کمسن اور پناہ میں آئے ہوئے شخص کو قتل کرنا معیوب تصور کرتے تھے-
شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ پناہ میں آئے ہوئے شخص کے تحفظ کے لئے لڑنا ،مہمان کے جان و مال کو ہر خطرے سے بچانا ،سوائے سیاہ کاری کے عورت کو قتل کرنا عظیم جرم تصور ہوتا تھا-ہندو کو مارنا گناہ کبیرہ،شلوار پہننے کی عمر سے کم سن لڑکے کو قتل نہیں کیا جاتا تھا،پیر کے دربار یا مسجد میں گھس جانے والے شخص کو امان ملتی تھی- جس نے جوتے گلے میں لٹکائے ہو یا جوتا دانتوں میں پکڑا اسے بھی قتل نہیں کیا جاتا
صفحہ 92،93
یہ اصول و ضوابط تھے جن پر بلوچ عمل پیرا ہوتے تھے-
کتاب کا دوسرا حصہ بلوچ مویشی بانی کے متعلق ہے جس کے کل دس ابواب پر مصنف نے عرق ریزی کی ہے۔
بلوچ کی معشیت میں بھیڑ کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ بلوچ کی روزی روٹی کا وسیلہ ہے-کپڑے اور روٹی کے علاوہ دکھ درد کی محافظ ،جرمانہ اور تاوان کا درمان اور غم کے وقت کرنسی کا کردار ادا کرتی ہے-بلوچ بھیڑ کی بہت عزت کرتے ہیں اسے ولی اللہ قرار دیتے ہیں اور سردار کے سر کی قسم کے بعد سب سے بڑی قسم ہوا کرتی تھی-اسکے برعکس انگریز بھیڑ کو بزدلی کی علامت قرار دیتے ہیں۔
اس بھیڑ پال معشیت میں کئی قصے کہانیاں اور بلوچ کے استحصال کا دکھ چھپا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ سماج میں طبقاتی تضاد موجود ہے اور یہی طبقہ بلوچ کے استحصال میں کردار ادا کررہا ہے-
ان کی زندگی بھی کیا زندگی ہوتی ہے کہ دن کے چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی رہتے ہیں ،نہ کوئی چھٹی ،نہ وقفہ نماز اور نہ ہی مراعات -مویشی،گائے،اونٹ اور گھوڑوں کا مالک بھوتار کہلاتا ہے جبکہ دوسروں کے مویشی چرانے والے کو پہوال کہتے ہیں -کتاب کے صفحہ نمبر 105 اور 106 میں پہوال کا طرز معاش ،طریق و شرائط کار اور اسکی اقسام بیان کی گئی ہیں-جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی زندگی دکھوں میں لپٹی ہوئی زندگی ہے بقول شاہ محمد مری کہ اس طبقے کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی کی گئی وہ یہ ہے کہ آج تک اس کا طبقاتی وجود تسلیم نہیں کیا گیا-
صفحہ نمبر 107
یہ استحصال یہاں نہیں رکتا بلکہ جاری رہتا ہے جب پہوال بھیڑ کے پشم اتارتا ہے جن کا سودا پہلے سے ہی طے ہوتا ہے لیکن یہاں بھی گوڑی کے حساب سے پشم بھیجنا پڑتا ہے اور نقدی کے بدلے دکان سے سامان لینا پڑتا ہے یعنی دکاندار پشم سستی لیکر سودا سلف مہنگا بیچ دیتاہے –
شاہ محمد مری رقمطراز ہے کہ پہوال سے لیکر بھوتار تک اور پھر مقامی سوداگر تک کو یہ علم نہیں کہ پشم آخر جاتا کہاں ہے-مارکیٹ میں اسکے ریٹ کونسی قوتیں مقرر کرتی ہے -بڑے سوداگر کو کتنا منافع ہوتا ہے اور اسکی پشم کا آخری استعمال کیا ہے؟انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ارزاں فروخت کردہ پشم سے بے شمار چیزیں کارخانوں میں بنتی ہیں اور پھر دوبارہ خود انہی پر مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں-
صفحہ نمبر 113
مویشی کی فروخت اور اسے منڈی میں لیجانے کے لئے ایک کارواں جاتا ہے جسے جلو کہا جاتا ہے-مویشی بانی نہ صرف بلوچ کی روزی روٹی ہے بلکہ بلوچ کے مویشی ہمیشہ چھری کے نیچے ہوتے ہیں،نرینہ اولاد کی پیدائش پر ،اس کے ختنے پر ،منگنی پر جبکہ شادی کے دنوں سو سو دنبے تک ذبح کئے جاتے ہیں-شاہ محمد مری کے مطابق بلوچوں کا رواج ہے کہ مہمان داری کی مد میں مویشی کی ایک اچھی خاصی تعداد قربان ہوتی ہے-مہمان کو البتہ ایک تکلیف کرنا پڑتی ہے کہ اس نے دنبہ خود ذبح کرنا ہوتا ہے اور گوشت خود ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہوتا ہے-لکڑی خود چن کر لانا پڑتی ہے اور سجی بھی خود پکانا پڑتی ہے تاکہ میزبان کے کام کو شئیر کیا جاسکے-
صفحہ نمبر 120
شاہ محمد مری مذید کہتے ہیں کہ گوشت خوری کے بارے میں بلوچ قبائل میں دلچسپ رواج و عقائد موجود ہیں-مثلا مری قبیلے کی بجارانڑیں شاخ کے لوگ گردہ اور بالخصوص گائے بیل کا گردہ نہیں کھاتے تھے-خاص کر کثیر القبائلی اجتماعات میں گردہ کھانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا -وہ گردہ کیوں نہیں کھاتے ،کسی کو خبر نہیں-نہ عقل مند و دانا لوگوں کو معلوم ہے اور نہ سفید ریش اور جہاندیدہ لوگ کچھ بتاسکتے ہیں-یہ پابندی اس قدر زیادہ ہوتی تھی کہ کسی جگہ لوہارانڑیں ،گزینی یا کوئی دوسرا پڑوسی قبیلہ میزبانی میں اجتماع کے اندر اگر جان کر بجارانڑیں کی تھال میں گردہ ڈال دیتا تو یہ جانی پہچانی بات تھی کہ اس نے بہت بڑی دشمنی مول لی-
صفحہ 124
ان مویشوں کو ذبح کرکے سجی ،گی اور پرسندا لاندی تیار کیا جاتا ہے جسے شوق سے کھایا جاتا ہے-سمتوں کے حساب سے پتہ چلتا ہے سجی خیر والی ہے یا غم والی -اس سجی کے پکانے سے قدیم قبائلی دشمنی کے کچھ تصور بھی وابسطہ ہے-اگر ایک قبیلہ کے لوگ اپنی سجی کی درمیانی رخ دشمن قبیلے کے علاقے کی طرف کرتے ہیں اور دوسرے قبیلے کے لوگ بھی سجی میں ان سمتوں کو اپنے ہی اس دشمن قبیلے کیطرف موڑ کر دشمنی کے عہد اور یاداشت کو تازہ رکھتے ہیں-
مست نے اس فضول اور غیر انسانی رواج کو ختم کئے رکھا- مصنف صفحہ 126 میں کہتے ہیں کہ مست نے بلوچستان میں بہت آہستہ اور مستقل مزاج لڑائی کے بعد عملا یہ کام کردیا تھا کہ اس نے کھانے میں،خیرات میں،مہمانی میں،شادی بیاہ میں خود کھانے سے پہلے عورتوں کا حصہ الگ کرکے انہیں بھجوانے کو مستقل طور پر یقینی بنایا-مویشی سے شیر و روغن،بوھلی اور کٹ،پنیر،دہی ،لسن،مکھن دیسی روغن ،مذر اور کروت تیار کی جاتی تھی-مصنف کے بقول صرف مری بگٹی قبیلوں میں چودہ لاکھ بھیڑیں ہوں اور لوگ دودھ کو ترسیں ،ان کے بچے بے خوراکی سے افریقن بچوں جیسے لاغر و نحیف ہو کر بالاخر مرجاتے ہیں-
صفحہ نمبر 130
اونٹ اور گھوڑے بھی بلوچستان میں پائے جاتے ہیں -اونٹ صدیوں سے بلوچ کا دست و بازو رہا ہے،بلوچ ایک طرف تو ساحل مکران سے لے کر ڈیرہ غازی خان اور دوسری طرف ساحل مکران سے لے کر قندہار تک ساری تجارت اسی اونٹ سے کرتے رہے ہیں-بلوچ نسل کے گھوڑے بہت شہرت کے حامل ہے لیکن یہ زیادہ تر نسل کشی کے لئے استعمال ہوتے ہیں -شاہ محمد مری صفحہ نمبر 139 میں کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں جب جنگیں تلواروں سے لڑی جاتی تھیں تو ہندوستان بھر میں قلات اور خضدار کی گھوڑیاں مشہور ہوا کرتی تھی-
مویشی بانی سے گھریلو استعمال کی چیزیں بھی بنائی جاتی ہیں جو زیادہ تر عورتیں ہی بناتی ہے-مویشی کی کھال سے مختلف بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے -اسکے علاوہ ڈیٹر جنٹ،کشیدہ کاری،چٹائی ،گل کاری،پیش اور اسکی مصنوعات بھی تیار کی جاتی ہے-
باب نمبر دوم کا آخری مضمون ٹیکس اور امداد باہمی کے نام سے ہے -بلوچ قبائلی معاشرے میں مختلف ٹیکسز وصول کئے جاتے تھے جن میں گھال،تنڑیں،سنگ،دھڑ،مالیہ،زرسر،زرشاہ،زرترنی، ڈھک ،نال پروش ،پنجک،یہاں تک کہ مرگ ٹیکس بھی سردار بیورغ کے زمانے میں نافذ کیا گیا اور ریز نامی ٹیکس ملا کو دیا جاتا تھا جو جنگوں میں دم چھو کا کام کرتا تھا-جبکہ امداد باہمی کے ذرائع میں بجار ،پوڑی اور وس پنڑ قابل ذکر ہے-
کتاب کا تیسرا حصہ جس کے تین باب ہے وہ بلوچ ذراعت سے متلعق ہے-
اس حصے کے پہلے باب میں بلوچ ذراعت کی تاریخ بیان کی گئی ہے کہ کس طرح بلوچ سماج نے روزی روٹی کے لئے ذراعت کو چنا-ذراعت ایک انقلاب کا نام تھا جس نے تہذیب کو جنم دیا-لیکن اگر غریب کاشتکار کی بات کی جائے تو اسکے لئے بے عزتیاں اور غم ہیں-اگر کسان دیوالیہ ہوجائے تو وہ غلام بن جاتا ہے اسکی زندگی ایک کرائے کے مزدور میں تبدیل ہوجاتی ہے-
مصنف صفحہ نمبر 154 میں کہتے ہیں کہ بلوچوں میں اب تو ذراعت واحد معشیت نہ رہی مگر جب تک یہ ہماری روزی روٹی کے حصول کا سرچشمہ تھی ذراعت میں یہی کچھ ہوتا تھا-
چاکر و گہرام کی جنگوں نے بلوچ کو خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا -بلوچوں کی پیداواری ترقی جنگوں اور فتوحات کی وجہ سے پسپا کردیا گیا-جب بلوچ سرقبیلوی نظام کے حوالے ہوگئے تو اس نظام نے سردار کو فیوڈل لارڈز بنادیا کیونکہ اس نظام میں جنگ و جدل ہی سیاست و ثقافت ہوتی تھی اس لئے معشیت کے اس ذریعے کو دوام بخشنے والے کو سردار چن لیا جاتا تھا یعنی جمہوری نظام کی جگہ طاقت کا نظام آگیا-سترہویں صدی میں میر احمد کی کنفیڈریشن نے بلوچ سماج کو ایک تشخص دیا جس کی وجہ سے قدیم جمہوریت کی جگہ اشرافیہ کے عنصر نے بڑھنا شروع کیا ،میر نصیر خان اسی دولت کے ارتکاز کی وجہ سے زبردست حاکم بنا ،اسکی فتوحات نے غلامی کی دوسری شکلوں کو متعارف کروایا -شاہ محمد مری کہتے ہیں مویشی بانی کی طرح غلامی بھی پورے بلوچستان میں عام تھی اور کوئی بھی ایسا قابل ذکر خاندان نہ تھا جس کے پاس غلام مرد یا عورت نہ ہو –
صفحہ نمبر 164
جاگیرداری نظام کی ترقی نے رضاکارانہ چندے کے نظام کو ختم کرکے اسے باقاعدہ ایک ٹیکس کی شکل دی اور انہی ٹیکسوں سے سردار طبقے نے اپنی اقتصادی قوت خوب بڑھالی-
تیسرے حصے کا باب نمبر دو ذراعت کی اقسام سے متلعق ہے لڑ آف اور سیاہ آف کے نام پر آبپاشی کے دو نظام وجود رکھتے ہیں-لڑ آف کی فصلات میں جوار ،باجرا ،ماش،لوبیا اور گندم قابل ذکر ہے جبکہ اس قسم کے ذراعت کے ذرائع موسم اور بارشوں سے وابسطہ ہوتے ہیں-
کاشت کاری کی اصطلاحات میں ربیع،خریف اور نوروز قابل ذکر ہے-
پیداوری رشتے کی اگر بات کریں تو کسان کا استحصال شپ،سیک،نصف،مالک کا تہائی حصہ ،بوھروئی ،پتی،کندوئی سے ہوتا ہے جو مختلف ٹیکس ہوتے ہیں جبکہ امداد باہمی کے بھی مختلف ذرائع کا اس باب میں ذکر ہے جنہیں ھشر،مشر اور واھر کہا جاتا ہے
ذراعت کی دوسری قسم سیاہ آف ہے جو کاریز ،ٹیوب ویل، رھٹ اور ادویات کے استعمال سے کاشت کی جاتی ہے جبکہ اسکے دوسرے ذرائع دریا اور نہریں ہیں۔
سیاہ آف میں سیب،آم، زیرہ،زعفران ،کجھور ،ذرد آلو،آڑو، دھنیا ،مرچ اور لہسن کی کاشت کی جاتی ہے- نہری ذراعت میں بھی کسان کی حالت انتہائی خراب ہے وہ پسماندہ ہے ،قرض اور مرض اسے جکڑے ہوئے ہیں۔
مصنف کہتے ہیں کہ زمیندار ایک مخصوص رقم بطور قرض ضرورت مند کسان کو دیکر نصف پیداوار کی شرط پر زمین آباد کرنے کا معاہدہ کرتا ہے -یہ رقم کسان کو خاندان سمیت گروی رکھنے کا گویا ضمانت ہوتی ہے-
صفحہ نمبر 210
کتاب کے تیسرے حصے میں کسانوں کی کچھ تحریکوں کا ذکر ہے جن میں مزدکی تحریک،جھالار و کسان تحریک ،1717 کی کسان بغاوت ،ششک تحریک ،پٹ فیدر اور کسان تحریک شامل ہے –
اختتامیہ–
شاہ محمد مری کی کتاب قبائلی اور جاگیرداری عہد نہ صرف ایک تاریخی کتاب ہے بلکہ اس کتاب میں ان دکھ و تکلیف کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ بلوچستان کا غریب بلوچ کس طرح سرکار اور سردار کے استحصال کا شکار ہے-وہ دو وقت کی روٹی کے لئے اپنے آپکو اور اپنے خاندان کو تک گروی رکھ دیتاہے لیکن نہ اس کا قرض ختم ہوتا ہے اور نہ ہی مرض ختم ہونے کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں بلکہ روز بروز ان تکالیف میں اضافہ ہوتا رہتا ہے-
شاہ محمد مری اس کتاب میں طبقاتی تضاد کا بھی ذکر کرتا ہے کہ نچلے طبقے کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ہے لیکن مایوس کن امر یہ ہے کہ بلوچستان میں کئی طبقات ایسے ہیں جن کی طبقاتی موجودگی تک کو قبول نہیں کیا گیا ہے-
سرمایہ داری نظام سے دنیا میں جو تبدیلیاں رونماء ہوئی بلوچ آج بھی ان تبدیلوں سے محروم ہے اور سرمایہ داری نظام کی پیچدگیوں سے نا واقف ہے-
مختصر یہ ہے کہ بلوچ ہر طبقہ فکر کے لے یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ہے جس کا مطالعہ نہ صرف تاریخی حقائق سے واقفیت کے لئے معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ استحصال کی ایک کہانی بھی بیان کرتا ہے-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں