پاکستان ایک کالونیل طاقت کی حیثیت سے بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ بی ایس او آزاد

228

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں ماحل بلوچ کی جبری گمشدگی اور بعدازاں بلوچ فدائی ظاہر کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان کو گرفتار کر کے سلاخوں کے نظر کر رہا ہے۔ اس طرح کے عمل بلوچستان میں جاری ریاستی پالیسیوں کے بھیانک شکل کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ شب ریاستی فورسز نے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی خاتون ماحل بلوچ کو اُس کے بچوں سمیت جبری طور پر گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا۔ جہاں بچوں کو رات بھر تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا وہیں ماحل بلوچ تاحال ریاستی اذیت خانوں میں پابند سلاسل ہے۔ ریاستی اداروں نے روایتی پالیسی اپناتے ہوئے ایک بار پھر من گھڑت الزم لگا کر ماحل بلوچ کو خودکش بمبار ہونے کا الزام لگایا ہے جو کہ ریاستی بوکھلاہٹ کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ ریاست جہاں تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے بلوچ قومی سیاست کو کاؤنٹر کرنے سے قاصر ہے وہیں مختلف حربوں کو آزماتے ہوئے نہتے سیاسی کارکنان پر مختلف الزام لگا کر سلاخوں کے نذر کر رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کسی سیاسی کارکن پر جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کیا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی سینکڑوں سیاسی کارکنان کو ریاستی اداروں نے نہ صرف لاپتہ کیا بلکہ بعدازاں اُنکی مسخ شدہ لاش بھی پھینکی گئی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے ریاستی اداروں نے ایک نئی پالیسی کے تحت بلوچ خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا تسلسل اپنایا ہوا ہے۔ گزشتہ سال ریاست نے کراچی اور کیچ سے خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کیا اور بعدازاں مختلف الزامات لگا کر منظر عام پر لایا۔ ریاستی فورسز نے بولان میں آپریشن کے بعد درجن بھر خواتین کو جبری طور پر گمشدہ کیا۔ اسی طرح آج سے ایک ہفتہ قبل ایک اور بلوچ خاتون رشیدہ بلوچ کو اُن کے شوہر سمیت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور ہفتہ بھر تشدد کے بعد انھیں منظر عام پر لایا گیا جبکہ اُن کے شوہر رحیم زہری تاحال جبری گمشدگی کا شکار ہے اور پابند سلاسل ہے۔

اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا شکار بنانا اور اذیت گاہوں میں منتقل کرنا بلوچ قومی روایات کی سنگین پامالی ہے۔ ریاست تمام انسانی اور قومی اقدار کی پامالی کر رہا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے بھیانک عمل کے خلاف سیاسی مزاحمت کا آغاز کیا جائے کیونکہ ریاست کے خونخوار پنجے اب بلوچستان بھر میں پھیل چکے ہیں اور ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں ریاست اس عمل میں مزید شدت لائے۔