بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 4945 دن مکمل ہوگئے۔
اس موقع پر پیرا میڈیکل اسٹاف کے شہناز بلوچ، زاہدہ بلوچ اور انکے دیگر ساتھیوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ نہتے بلوچ عوام کو بندوق برداروں کے حوالے کیا جا رہا ہے، جہاں ڈیتھ اسکواڈ کھلے عام بلوچوں کی عزت نفس کو مجروح کرتے رہتے ہیں اور اپنی دہشتگردانہ کروائیوں کو حکومتی رٹ اور امن کی بحالی کا نام دیتے ہیں، بلوچوں کو جبری اغوا کرکے لاپتہ کرنا انکے لئے فرض بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی جیلوں میں بند بلوچ سیاسی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک تشدد ٹارچر ریاست کا قانون اور تہذیب کا حصّہ بن چکی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان سے ہزاروں جبری لاپتہ بلوچ نوجوانوں خواتین بچوں بزرگ ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا۔
بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو چھاوٴنیوں میں تبدیل کرکے انہیں فورسز کے حوالے کا عمل بلوچوں کی ترقی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل کوئٹہ سے نہتے بچوں اور خواتین کو لاپتہ کیا گیا۔ خفیہ اداروں نے محمد رحیم زہری کی بیوی، والدہ و کمسن بچے لاپتہ کرکے بلوچستان میں فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔
ماما قدیر نے کہا کہ حالیہ عبدالحفیظ زہری کے ساتھ جو ہوا۔ اس پر خاموشی جرم تصور ہوگا، ریاستی ادارے اپنے عدالتوں کے حکم کو پاؤں تلے روند رہے ہیں۔