آج سورٹھ لوہار ،چیئر پرسن “وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ” نے سندھ کی تمام انسانی حقوق کی تنظیموں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر آپ کے سامنے سندھ میں انسانی حقوق کی شدید پائمالی ، جبری لاپتہ افراد اور ریاستی ظلم ، جبر اور بربریت کا کیس رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں لاپتہ افراد ، جبری گمشدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں اور انسانی حقوق کی پائمالیوں کا مسئلہ 1970 کی دہائی سے چلا آرہا ہے بلوچستان میں تو یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ، جس میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ کارکنان جبری لاپتہ کیئے جاچکے ہیں اور ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ میں جبری گمشدگیوں ، لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کی شدت سن 2000 سے شروع ہوئی ہے جس میں آج تک اندازاٙٙ 2 ہزار سندھی کارکنان کو جبری لاپتہ کیا جا چکا ہے ، ان میں سے ہزاروں کو جھوٹے مقدموں میں جیلوں میں بھیجا گیا ، سیکڑوں سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں ، جن میں شہید سمیع اللہ کلھوڑو ، مظفر بھٹو ، سرائی قربان کھاوڑ ، روپلو چولیانی، نواللہ تنیو ، مقصود خان قریشی ، سلمان ودھو، آصف پنہور ، منیر چولیانی ، برکت چانڈیو ، عامر کھاوڑ ، سجاد مرکھنڈ، نیاز لاشاری، الہڈنو راہموں، نواب راہموں ، اللہ بخش کھوکر اور دیگر سیکڑوں سندھی اور اردو اسپیکنگ مسنگ پرسنز شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا یہ فورم “وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ” بتاریخ 22 مئی 2017 کو حیدرآباد پریس کلب میں سندھ کی تمام سیاسی اور قومپرست جماعتوں کی جانب سے ایک “آل پارٹیز کانفرنس ” میں اس وقت بنایا گیا جب سندھ میں دوسری بار 2017 میں سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیوں میں بہت تیزی آئی ۔ جس دوراں 17 اپریل 2017 کو خود میرے والد ہدایت لوہار جو کہ ایک پرائمری استاد ہے ، نصیرآباد کے پرائمری اسکول سے اٹھاکر جبری لاپتا کیا گیا۔ جس کے بعد میں اس مسنگ پرسنز تحریک میں سرگرم ہوئی اور بعد میں اس فورم کی ڈپٹی کنوینر اور پھر چیئرپرسن چُنی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں 2017 سے لیکر اس وقت تک 500 سے زائد سیاسی سماجی قوم پرست ، صحافی ، رائیٹرز ، استاد ، وکلاء سمیت انسانی حقوق کے کارکنان کو فورسز اور ایجنسیوں نے اٹھاکر جبری لاپتہ کیا ہے۔جن میں جسقم رہنما ایوب کاندھڑو، انصاف دایو، مرتضیٰ جونیجو، سرویچ نوحانی ، پٹھان خان زہرانی اب اس کا بیٹا عرفان زہرانی، انجنیئر ماجد حیدری ، کاشف ٹگڑ ، سہیل بھٹی، اعجاز گاہو، الہودھایو مہر ، ڈاکٹر فتح محمد کھوسو، شبیر قمبرانی، عنایت خشک ، شاگرد شاہ عنایت مری ، سہیل مری اور دیگر درجنوں لوگ کئی کئی سال گذرجانے کے باوجود ابھی تک جبری لاپتہ ہیں جبکہ ان کے ساتھ اٹھائے گئے میرے والد ہدایت لوہار، خادم آریجو، صابر چانڈیو، صدر کولاچی ، بشیر شر ، سہیل میرانی سمیت سیکڑوں کارکنان کو کئی کئی سالوں تک جبری لاپتا رکھنے کے بعد جھوٹے کیسز لگا گر جیلوں میں ڈالا گیا ۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ دوسری جانب سندھ میں بھی اب بلوچستان کی طرحہ مختلف علاقوں سے سندھی خواتین اور بچوں کو بھی فورسز کی جانب سے اٹھاکر جبری لاپتہ کرنے کے واقعات ہوئے ہیں۔ جن میں قمبر سے قوم پرست کارکن نور چانڈیو اور نوشہروفیروز سے رستم شر کی فیملیز شامل ہیں۔ سندھ میں کئی دِہائیوں سے ریاستی فورسز ، پولیس اور ایجنسیوں کی جانب سے جبری لاپتا ہونے والے ان تمام سیاسی سماجی کارکنان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنی ہی دھرتی پر اپنے جینے کے حق کے لیئے ، سندھ میں اپنے سیاسی ، سماجی اور انسانی حقوق کی حاصلات اور آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور سندھ کے وسائل کی لوٹ مار، بھوک بدحالی، بیروزگاری اور نو آبادکاری سمیت سندھ کے تمام سیاسی مسائل پر جدوجہد کر رہے ہیں اور آواز اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سب کے سامنے سندھ کے مسنگ پرسنز کا یہ تفصیلی کیس رکھنے کی ضرورت اس لیئے پڑی کہ آپ اس تحریک کے پورے پس منظر سے اچھی طریقہ سے واقف ہوجائیں ۔اب میں آپ سے تازہ صورتحال کے متعلق اپنا مختصر اور جامع کیس رکھنا چاہتی ہوں ؛
ہماری مسنگ پرسنز تحریک کی اتنے سالوں کی یہ جدوجہد آپ کی ساری میڈیا ، نیوز چینلز، سوشل میڈیا اور تمام اخباری رکارڈ پر موجود ہے کہ یہ تحریک کب سے چل رہی ہے اور کیوں چل رہی ہے۔ میں 2017 میں اپنے والد کی جبری گمشدگی کے بعد سندھ میں وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ فورم کے پلیٹ فارم سے سندھی مسنگ پرسنز تحریک کی رہنمائی کر رہی ہوں اور انعام عباسی 2020 سے خود اپنی جبری گمشدگی اور آزاد ہونے کے بعد اپنے سندھ سبھا کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ ہماری یہ سندھی مسنگ پرسنز کی تحریک سندھ کی تمام سیاسی سماجی جماعتوں کے کارکنان اور خاص طور پر لاپتا افراد کی خود اپنی فیملیز پر مشتمل ہے۔ لیکن اب اس تحریک کا راستا روکنے اور سندھ میں مسنگ پرسنز کی آواز اور تحریک کو کُچلنے کے لیئے ریاستی ادارے ، ایجنسیاں اور خاص طور پر سندھ پولیس کا ادارہ سی ٹی ڈی ہمارے خلاف جھوٹے اور مٙن گھڑت پروپیگنڈا پر مشتمل بیانات اور پریس رہلیز چلا رہا ہے تاکہ ہم سب ریاستی اداروں کی ان پروپیگنڈا کا شکار ہوکر ہراساں ہوکر لاپتا افراد کے لیئے اپنا آواز اٹھانا چھوڑدیں اور اپنی سیاسی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کرنا چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا 13 جنوری اور 15 فروری 2023 کو سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے ہمارے خلاف جھوٹے الزامات پر مبنی پریس کانفرنس کی گئی ہیں جن کا مختصر خلاصہ کرتے ہیں کہ سی ٹی ڈی پولیس سندھ میں جعلی مقابلوں میں تو پہلے ہی ماہر تھی لیکن اب مسنگ پرسنز تحریک کی سیاسی جدوجہد کو روکنے اور کچلنے کے لیئے نشانا بنا رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ جس میں سی ٹی ڈی سندھ پولیس کے سندھی مسنگ پرسنز کو جھوٹے کیسز میں گرفتاریوں اور جھوٹے مقابلوں کا کالا چِھٹا کچھ اس طرح ہے ؛
١۔ 19 اپریل 2022ع کو قمبر سے جبری لاپتا کیئے گئے محمد علی چانڈیو 2022جون پر سی ٹی ڈی لاڑکانہ نے لاڑکانہ میں جعلی مقابلہ دکھاکر گرفتاری ظاہر کی۔
٢۔ سرمد میرانی کو 15 جون 2022 کو باڈھ اپنے اسکول کے گیٹ سے اٹھایا گیا اور اسے 8 جولائی 2022 کو سی ٹی ڈی لاڑکانہ نے جعلی مقابلہ دکھاکر جھوٹے کیس لگا کر گرفتاری دکھائی۔
٣۔ اصغر جمالی 16 ڈسمبر 2022 پر دادو کے علائقے میہڑ سے انعام سندھی اور اصغر باریچو کے ساتھ ایجنسیوں نے اٹھاکر لاپتا کیا ، جس کے بعد انعام سندھی اور دوسرے کارکن اصغر باریچو کو تو اس رات ہی آگے چل گاڑیوں سے پھینگ دیا گیا ، جبکہ اصغر جمالی کو لاپتا کردیا گیا ۔
۴۔ شعیب خشک کو 19 دسمبر کو ٹھٹہ کے علائقے مکلی سے اٹھایا کر جبری لاپتا کیا گیا جبکہ نفیس خشک کو 24 ڈسمبر کو اسی علائقے سے اٹھاکر جبری لاپتا کیا گیا تھا۔
ان تمام مسنگ پرسنز کے لیئے احتجاج ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن سی ٹی ڈی کراچی نے اصغر جمالی کی گرفتاری 13 جنوری 2023 کو کراچی نادرن بائی پاس کے قریب کسی ہوٹل سے چار دوسرے الگ الگ جگہوں سے الگ الگ تاریخوں پر لاپتا کیئے گئے افراد شعیب خشک ، نفیس خشک ، فیاض جمالی کے ساتھ دِکھائی کہ “یہ سب لوگ حب سے جانے والے کسی بجلی کے کھنبے کو اڑاتے ہوئے بارودی مواد کے ساتھ مقابلہ کرکے پکڑے ہیں۔ اس پولیس مقابلے میں انعام عباسی ایک اور ساتھی کے ساتھ بھاگ جانے میں کامیاب ہوگیا !” جبکہ اسی تاریخ پر انعام سندھی مسنگ پرسنز کے لیئے کیمپ لگاکر اسلام آباد میں بیٹھا ہوا تھا۔
۵۔ جسقم کارکن منیر ابڑو کو 9 فروری 2019ع کو جامشورو سے ایجنسیوں نے اٹھاکر جبری لاپتا کردیا تھا اور اب اس کی گرفتاری سی ٹی ڈی حیدرآباد نے 15 فروری 2023 کو جامشورو کے قریب جھوٹے پولیس مقابلے میں دکھاکر 15 فرروری کو سی ٹی ڈی حیدرآباد کے ایس پی آصف بگھیو نے مجھ سورٹھ لوہار پر اور انعام سندھی پر جھوٹے الزامات اور مٙن گھڑت کہانیوں پر مبنی بڑی پریس کانفرنس کر ڈالی کہ “ہم کسی کالعدم تنظیم سے فنڈنگ لیتے ہیں یا فنڈنگ کرتے ہیں۔ اور ان کی فنڈنگ سے ہم مسنگ پرسنس کی تحریک چلا رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ”
اس طرح سی ٹی ڈی اور اس سے وابسطہ ایجنسیوں کے جھوٹے مقابلوں، ایکسٹرا جوڈیشل کلنگس اور سیاسی کارکنان پر مٙن گھڑت کیسز اور الزامات کی کارستانیوں کا بڑا داستان ہے۔ لیکن مینے اس پریس کانفرنس میں مختلف تواریخ کی روشنی میں صرف چند کیسز آپ کے سامنے رکھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے توسط سے اپنا یہ کیس سندھ اور پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ، ساری دنیا کی میڈیا ، تمام عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے رکھ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹر نیشنل ، ہیومن راٹس واچ ، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ، ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ سمیت تمام عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپیل کر رہے ہیں کہ وہ پاکستانی ریاست اور اس کی ایجنسیوں اور اسپیشلی سی ڈی ڈی سندھ پولیس کی جانب سے سندھ میں مسنگ پرسنز اور انسانی حقوق کی تحریک کو کُچلنے کا فوراٙٙ نوٹس لیں ۔
اس موقع پر ہم سب مشترکہ طور پر صلاح مشورہ کرکے بہت جلد سی ٹی ڈی سندھ پولیس کے خلاف اپنے سیاسی جدوجہد کے میدان اور عدالتی فورم سے بھی اپنا لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور اس جعلی اور جھوٹے مکار ڈپارٹمینٹ کے خلاف ہر محاذ پر جدوجہد تیز کریں گے اور اس کا گھیرائو کریں گے۔