ماحل محبت ہے ۔ محمد خان داؤد

330

ماحل محبت ہے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

ماحل اس کونج کی طرح ہے جو آکاش پر اُڑتے وقت بھی دھرتی سے جُڑی رہتی ہے
وہ آکاش کی وسعتوں میں اُڑتی پھرتی ہے پر اس کا دل دیس کی گلیوں میں رُلتا رہتا ہے
ماحل بلوچ دھرتی کی آخری کونج تھی، کوُک تھی، ایسی کوُک جس کوُک کو سن کر پورا دیس جاگ جائے
آج ماحل بلوچ کے بچے جاگ رہے ہیں اور بلوچ دھرتی سو رہی ہے
بلوچ شعور سو رہا ہے۔ بلوچ قلم سو رہا ہے۔ بلوچ ذہن سو رہا ہے۔بلوچ گیت سو رہے ہیں۔ بلوچ انقلاب سو رہا ہے۔ بلوچ سرمچار سو رہا ہے۔ بلوچ عقل سو رہی ہے اور بلوچ نوحہ نوحہ گر ہے۔
پر بلوچ دھرتی کے عظیم پہاڑ جاگ رہے ہیں
اور شاید ہیں اس سفر کے جو سفر دھرتی کی محبت میں کیا جاتا ہے اور پہاڑ کی تنگ گلیاں ان پیروں کے لیے وسیع ہو جا تی ہیں۔بلوچ سیاست سو رہی ہے۔پر وہ چاند جاگ رہا ہے جو ان گھروں کا طواف کرتا ہے جو گھر دیس کا درد جھیلتے ہیں اور دئیوں کی لوُ کی طرح جلتے رہتے ہیں،
کیا اب ماحل کا گھر بھی دیس کے درد میں دئیے کی لوُ کی طرح جلتا رہے گا؟
اور کیا چاند اب اس گھر کا بھی طواف کرے گا جس گھر میں اب ماحل نہیں پر وہ سسکتے بچے موجود ہیں جو اس ماحل کے دامن سے ایسے چھڑائے گئے جیسے کونج کے دامن سے بچے چھڑا کر کونج کو گھائل کیا جاتا ہے؟یہ درد تھا یا اعزاز کہ ماحل ایک دیش بھگت کی بیوی ہے اور اپنی محنت سے اپنی محبت کی نشانی کو پال رہی ہے۔دیس کے گیت گاتی ہے۔آنکھوؤں سے آنسو پونچھتی ہے اور جا تے سورج سے پوچھتی ہے کہ
”سحر کب ہوگی،جس کا واعدہ ہے؟“
بلوچ دھرتی گُنگ ہے۔اور پہاڑوں پر ماتم!
یہ ماتم میدانوں میں ہونا چاہیے تھا۔دھرتی جل جا تی اور کوئی ہاتھ جلے ہوئے پتھروں سے اداس پتھروں پر لکھتا
”مائیں محبت ہیں انہیں اذیت مت دو“
پر ایسا کچھ نہیں،بلوچ مائیں پہلے اپنے گیلے آستینوں سے رو تی تھی۔پھر مسافر بنیں اب تو آپ ہی درد ہیں،اب ان گم شدہ ناموں میں ان بلوچ ماؤں کے نام بھی درج ہونے لگے ہیں اور ماحل ایک اور اضافہ ہے۔ماحل ان گم شدہ ناموں میں فل (۔)اسٹاپ نہیں پر وہ کامہ(،) ہے جس کے بعد اور نام درج ہو سکتے ہیں اور بلوچ دانش ہے تھر کی اس ریت کی طرح ثابت ہو رہے ہیں جو ہاتھوں میں اُٹھائی جائے تو بہہ جائے اور زمیں پر پڑی رہے تو ہوا سے اُڑتی رہے۔
حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دیس کو جل جانا چاہیے تھا اور سب کو یہ بتا دینا چاہیے تھا کہ مائیں محبت ہیں پر دیس کی تنگ گلیاں کیا پر سوشل میڈیا کی وہ گلیاں بھی نہیں جل رہیں جن گلیوں میں بیٹھ کر شیخ رشید جیسے شیدو بھاشن ما رتے ہیں اور سوشل میڈیا کی سب گلیاں نمکین سگار کے دھونے سے بھر جا تی ہیں
مجھے نہیں معلوم کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کہاں ہے؟مجھے نہیں معلوم کہ بلوچ سیاسی اکابرین کہاں ہیں؟
پر مجھے یہ معلوم ہے کہ بلوچ دھرتی بھی یہی ہے اور اس کا درد بھی یہی ہے
بلوچ مائیں بھی ہیں ہیں اور ان کے بے منزل سفر بھی یہی ہیں
اداس بیٹیاں بھی یہی ہیں اور ان کے بے سود احتجاج بھی یہی ہیں
مٹتی تصویریں بھی یہی ہیں اور اداس نین بھی یہی ہیں
راتیں بھی یہی ہیں اور ان راتوں کے رتجگے بھی یہی ہیں
مائیں بھی یہی ہیں اور ان کے ڈوبتے دل بھی یہی ہیں
مری ہوئی نیندیں بھی یہی ہیں اور پاگل ہو تی مائیں بھی یہی ہیں
تو دیس کی گلیاں کیوں نہیں جلتیں؟
بلوچ دانش کا احتجاج کیوں شور کی شکل نہیں لیتا؟بلوچ گیت کیوں نوحہ نہیں بنتے؟بلوچ موسیقار ایسی سیمفینی کیوں تخلیق نہیں کرتے جس سے پہاڑ چلیں نہ بھی تو بھی سرکیں تو صحیح!
بلوچ ادیب درد کی دانھن(شور) کیوں نہیں بن جاتا
اور وہ دانھن سن کر پو ری بلوچ دھرتی ایسی کیوں نہیں بن جا تی جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”جڈھن دھرتی گاڑھو کھونبو تھی ویندی!“
”جب دھرتی دلہن کے لباس کی ماند سرخ ہو جائے گی!“
پر کب؟
جب،
جب دیس کی گلیوں میں یہ گونجار ہوگی کہ
”ماحل محبت ہے!“
ماحل کونج ہے
دھرتی کی گونج ہے
جب زبانیں گُنگ نہیں ہو نگیں اور ہاتھ آگے بڑھ کر ماحل کا نام پتھروں پر نقش کردیں گے
جب دھرتی کا پلو عیار ذہن کے بدلے فقیر کے ہاتھوں میں ہوگا
اور فقیر اپنا کستہ بجا کر صدا لگا ئے گا
”ماحل محبت ہے!“
جب پیڈ دانشور سب اچھا ہے نہیں لکھے گا
اور پے رول پر بیٹھا دانشور محبت کی باتیں چھوڑ کر درد کی باتیں لکھے گا
تب سب سے پہلے وہ لکھے گا
”ماحل محبت ہے!“
جب دیس کی گلیاں درد سے بھر جائیگی
اور اُڑتی دھول چھٹے گی
تو بوسیدہ دیوار پر نازک ہاتھ لکھ رہے ہونگے
”ماحل محبت ہے!“
تب ہم بات کریں گے اس کونج کی جو دھرتی سے محبت کے جرم میں کہاں ہے؟
نہیں معلوم!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں