لسبیلہ میں بس کا المناک حادثہ – ٹی بی پی اداریہ

280

لسبیلہ میں بس کا المناک حادثہ
ٹی بی پی اداریہ

لسبیلہ کے المناک ٹریفک حادثے میں اکتالیس اموات ہوئی ہیں اور تین زخمی کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ لسبیلہ کا المناک بس حادثہ پہلا نہیں بلکہ کوئٹہ -کراچی ، پنجگور – کوئٹہ ، تربت – کراچی اور پنجگور -کراچی شاہراہ پر تسلسل کے ساتھ المناک حادثے رونماء ہوتے آرہے ہیں، جس سے ہزاروں اموات ہوچکی ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق اِن شاہراہوں پر حادثوں سے سالانہ سات آٹھ ہزار اموات ہورہے ہیں۔

لسبیلہ حادثے میں زخمی مسافر کا کہنا ہیکہ بس کی خرابی کے باوجود اور مسافروں کے اسرار کرنے پر بھی سفر جاری رکھا گیا جبکہ سفر کے دوران ایک مسافر گھر والوں کو میسج کرکے اطلاع کرچکا تھا کہ ڈرائیور تیز رفتاری سے بس چلا رہا ہے اور ٹرالروں کو کراس کررہا ہے۔ بس مالکان اور ڈرائیوروں کی لاپرواہی سے کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں لیکن حکومت حادثوں کے روک تھام کے لئے عملی پالیسیاں بنانے کے بجائے بیان بازیوں تک محدود ہے۔

حکومت پر یہ الزام لگتا آرہا ہے کہ بلوچستان میں جتنے شاہراہیں تعمیر کی گئی ہیں، مبینہ طور پر وہ تمام نوآبادیاتی پالیسیوں کے بنیاد پر بنائے گئے ہیں تاکہ بلوچستان میں وسائل کے “لوٹ مار” کے بعد پاکستان کے دوسرے حصوں تک اُن کی ترسیل آسانی سے کر ہوسکے۔ کوئٹہ – کراچی شاہراہ ساٹھ کی دہائی میں بنائی گئی تھی تاکہ نوکنڈی اور جہلاوان کے سنگ مرمر اور دوسرے معدنیات کو آسانی سے کراچی پہنچایا جاسکے۔

اسکے علاوہ ان حادثات کے رونما ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے سڑکوں پر ٹریفک کا حجم بڑھتا جارہا ہے لیکن اسکے باوجود بلوچستان میں ایک بھی چار رویا سڑک موجود نہیں، بار بار کے عوامی مطالبات کے باوجود آر سی ڈی شاہراہ کو دعووں کے باوجود چار رویا بنایا نہیں جاسکا، جسکی وجہ سے حادثات کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتی جارہی ہے۔

ان حادثات میں اموات کی ایک بڑی وجہ، ایمبولنس اور ایمرجنسی سروسز کا فقدان بھی ہے۔ اگر بلوچستان کی شاہراوں کو چار رویا بناکر، ایمرجنسی سروسز کو بہتر بنایا جائے اور مسافر بسوں کو ریگولیٹ کیا جائے تو بہت سی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔