بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4946 مکمل دن ہوگئے- پنجگور سے سیاسی سماجی کارکن جمیل احمد بلوچ، راشد بلوچ، اللّه بخش بلوچ نے کیمپ اکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-
کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہم وزیر داخلہ رانا ثنااللہ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ پچھلے سال کوںٔٹہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے میں آئے اور وعدہ کرکے چلے گئے- کہاں ہیں آپ کی رپورٹس کس حوالے سے تم نے کام کیا ہے ذرا ہمیں بھی بتا دیں-
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہم مانتے ہیں کہ یہ خفیہ اداروں کے سامنے بے بس ہیں اور لاپتہ بلوچ سیاسی کارکن قیدیوں کے بارے میں جو ٹارچر سیلوں میں اندھیرے کوٹھریوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں دورہ کرنے کی زحمت کیوں گوارہ نہیں جہاں بلوچ سیاسی نوجوانوں بچوں خواتین و بزرگوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ہم ان کے دورہ بلوچستان کے فلمی سین عکس بندی اور ڈرامہ تھا اسی طرح جب لواحقین کو کمیشن کمیٹیاں بلاتے ہیں تو سب سے پہلے یہی سوال کرتے ہیں کہ ثبوت لاؤ ہزاروں ثبوت پیش کئے ہیں فوٹیج پیش کئے اور ہزاروں بلوچوں کے ورثا کے احتجاج پریس کانفرنس اخباری بیانات سابقہ وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ کے اعترافات موجودہ صوبائی وزیر داخلہ کے انکشافات وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مرتب کردہ لسٹ بلوچ قائدین کے جبری اغوا مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ریکارڈ پر موجود ہے-
ماما قدیر کا کہنا تھا مذکورہ شواہد آپ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور آنکھیں کھولنے کے لئے کچھ نہیں۔ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے یہاں پہ عالمی قوانین کے تحت بلوچوں کے سیاسی قیدیوں کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے ایک اور ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں بلوچ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کی ایک طویل داستان موجود ہے اس تمام عرصے میں فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 300 سے زائد خواتین اور 170 معصوم بچوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناء چکی ہے کوئٹہ سے محمد رحیم زہری اور اہلخانہ کی جبری گمشدگی بھی اسی سلسلے کا تسلسل ہے-
ماما قدیر بلوچ نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ ایک سالہ بچوں کی جبری گمشدگی پاکستانی ریاست کی ناکامی کو واضح کرتی ہے ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نونہال بچے بھی اب پاکستان کے لئے خطرہ ہیں-