بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی این ایم کی جانب سے 31 جنوری کو شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور شہدائے مستونگ کی ساتویں برسی کے موقع پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ مرکزی سطح پر ایک ویبنار کا اہتمام کیا گیا جس میں بی این ایم کے چئیرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ، بلوچ ادیب و دانشور ڈاکٹر حنیف شریف، بی این ایم کے سیکریٹری جنرل دلمراد بلوچ، سینئر جوائنٹ سیکریٹری کمال بلوچ نے خطاب کیا، جبکہ موڈیریٹر کے فرائض بی این ایم جرمنی چیپٹر کے صدر اصغر بلوچ نے سرانجام دئیے۔
جبکہ بی این ایم مشکے ھنکین کی طرف سے بھی یادگاری نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں کثیرتعداد میں مذکورہ ھنکین کے کارکنان نے شرکت کی۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے شہدائے مستونگ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم جب بھی شہدائے مستونگ کا نام لیتے ہیں تو ہمیں پانچوں شہداء ڈاکٹر منان بلوچ، شہید بابو نوروز، شہید اشرف، شہید حنیف اور شہید ساجد یاد آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنی جگہ ایک علیحدہ کردار ہے۔ ہمارے لیے تمام بلوچ شہداء برابر ہیں۔ ان میں ڈاکٹر منان وہ تھے جو اپنی محنت، اور صلاحیت کی بنیاد پر بی این ایم کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر پہنچے۔ شہدا کا خون کسی نواب سے لے کر عام آدمی تک، سب کا درجہ برابر ہے لیکن کردار اور طریقہ کار ہر ایک کا علیحدہ ہے۔ ڈاکٹر منان نے ایک ایسے وقت میں بی این ایم میں شمولیت اختیار کی جب واجہ غلام محمد جبری گمشدگی کا شکار تھے۔ اس دوران پارٹی کو منظم کرنے میں ڈاکٹر منان اور خلیل بلوچ سرفہرست تھے۔ اس وقت سے لے کر منان جان کی شہادت تک ہم ان کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہے تھے۔ اسی طرح شہید اشرف ہمارے ساتھ بی ایس او کی سینٹرل کمیٹی میں تھے، شہید حنیف بھی اسی وقت سے ایک سرگرم سیاسی کارکن تھے۔
انہوں نے کہا کہ منان جان کی شہادت بلوچ قوم اور بی این ایم کے لیے غلام محمد کی شہادت جیسا نقصان ہے۔ بی این ایم کے دس کونسل سیشنوں میں ہمیں جتنے چئیرمین اور سیکریٹری جنرل اور دوسرے عہدیدار ملے، ان میں شہید غلام محمد جیسا چئیرمین اور ڈاکٹر منان جیسا سیکریٹری جنرل جیسا میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ سیکریٹری جنرل کی جو ذمہ داریاں ہیں ووہ پارٹی میں سب سے زیادہ ہیں۔ پارٹی پروگرام کی تشہیر، رابطہ، تنظیم کاری، ان سب کو اکھٹا لانے کے بعد ایک ریکارڈ بنانا سب سیکریٹری جنرل کے ساتھ ہیں جسے دو جوائنٹ سیکریٹریز کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسے عملی طور پر بہترین طریقے سے ڈاکٹر منان بلوچ ہی نے نبھایا۔ لوگوں سے رابطہ، کارکنان کو فعال اور سرگرم رکھنا، یہ ڈاکٹر منان کی خصوصیات تھیں۔ بی این ایم جیسی انقلابی تنظیم کے کارکن کو غیر فعال دیکھنا ڈاکٹر منان کے لیے ناقابل قبول تھا۔‘‘
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا وقت اور حالات کے مطابق بی این ایم نے اپنی پالیسیاں بنائی ہیں۔ آج ہم بلوچستان میں زیر زمین سیل سسٹم کی طرز پر کام کر رہے ہیں تاکہ ہم اپنے کارکنان کو تحفظ دے سکیں۔ ہمارے شہداء کی قربانیوں کی وجہ سے لوگوں میں شعور آگئی ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے سرگرم ہیں۔ انھیں غلامی کا احساس ہے۔ ہم اس احساس کو مرنے نہیں دیں گے۔‘‘
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان جان ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ اس کے احساسات، طرز زندگی، سب ایک عام انسان کی طرح تھیں۔ وہ ہر سرگرمی میں شامل ہوتے تھے۔ وہ سیر و تفریح اور طنز و مزاح میں بھی ساتھ تھے، فلم اور سنیما کا شوق بھی رکھتے تھے۔ فارغ وقت میں انڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کا شوق بھی رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں سے آشنا تھے اور وہ انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے 31 جنوری کو کراچی میں شہید ہونے والی زامر بگٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک شیرذال تھیں، بلوچ قوم کے درد و غم میں شریک تھیں، اسی لیے انھیں پاکستانی ایجنسیوں کے ذریعے شہید کیا گیا۔ ان کی چھوٹی معصوم بچی اور ڈرائیور برکت کو اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ کچھ لوگ شاید سمجھیں کہ زامر بگٹی کو صرف براہمدغ بگٹی کی بہن اور بختیار ڈومکی کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے پاکستان نے شہید کیا مگر اس کے ساتھ شہید زامر کی اپنی سیاسی سوچ، سرگرمیوں، قوم دوستی اور وابستگی بھی ان کی شہادت کی وجہ تھی۔ وہ آئی ڈی پیز کی مدد کرنے میں نہایت سرگرم تھیں۔ انھیں ان کی سیاسی سمجھ بوجھ اور وابستگی کی وجہ سے شہید کیا گیا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ میں اپنی بات کا اختتام بھی ڈاکٹر منان جان سے متعلق بات کرکے ختم کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر منان بلوچ کا مستونگ تک پہنچنے کا سفر اور ان کا مقصد لوگوں سے میل ملاپ، تنظیم کاری تھا۔ اس کے ساتھ ان کے سفر کا مقصد آپسی جنگ اور کشت و خون کا روکنا تھا۔ اس وقت بلوچ، سوشل میڈیا میں بھی آپس میں لڑنے جھگڑنے، گالیاں دینے اور حتیٰ کہ راز فاش کرنے کی حد تک جا چکے تھے۔ دشمن پاکستان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جارہا تھا۔ سب لوگ بھول چکے تھے کہ ہم اپنے دستیاب سورس سوشل میڈیا کو دشمن کے خلاف اور اپنے پروگرام کو آگے لے جانے کے لیے استعمال کریں۔ ڈاکٹرمنان کا ان علاقوں میں جانے کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا۔ حالانکہ بی این ایم نہ مذکورہ معاملات میں ملوث تھی اور نہ ہی براہ راست ٹارگٹ تھی۔ لیکن ڈاکٹر منان جان نے یہ محسوس کیا کہ اس آپسی کشت و خون کا نقصان بلوچ قوم کو اور فائدہ صرف پاکستان کو جا رہا ہے۔ کہنے کا مراد یہ ہے کہ اتحاد کے لیے جب عملی طور پر اقدام کی بات آتی ہے تو ڈاکٹر منان بلوچ کا نام آتا ہے۔ آج سات سال بعد ان کوششوں کے اثرات آہستہ آہستہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت کچھ لوگوں نے کمٹمنٹ کی تھی کہ ہم حال احوال کرکے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن وہ اپنی باتوں اور وعدوں کو نہیں نبھا سکے۔ ڈاکٹر منان کی شہادت کے بعد ان میں کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ آج بڑی تکالیف اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے بعد شاید کچھ حلقوں نے محسوس کیا ہے کہ ہمیں اتحاد اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ہم عہد کرتے ہیں کہ منان جان کی اس خواہش اور جدوجہد کو ہم آگے لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ بلوچ ایک ہوں، ایک دوسرے کی مدد کریں کریں۔ اسی میں تحریک کی کامیابی ہے۔
سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے شہدائے مستونگ کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم فخر کے ساتھ اپنے لیڈر کی برسی منا رہے ہیں کیونکہ ہمارے لیڈر نے ہر وقت اپنے ساتھیوں کی شہادت پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ بلوچ قوم کے روشن مستقبل کے لیے انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ڈاکٹر منان بلوچ اس بات کا قائل تھے کہ تحاریک کی کامیابی کے لیے ایک مضبوط جماعت کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر جدوجہد ہو سکتی ہے لیکن وہ تحریک کا روپ نہیں دھار سکتی۔ بلوچ قومی تحریک میں ماضی میں ناکامی کی وجہ بھی پارٹی اداروں کی کمی تھی حالانکہ بلوچ قوم نے ہر دور میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ اس وقت شخصیات نے قیادت کی ہے۔ شخصیات اداروں کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ اس تحریک میں قومی غلامی سے ہمیں صرف پارٹی اور پارٹی ادارے نجات دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ڈاکٹر منان بلوچ نے نہایت جانفشانی سے تگ و دو کی۔
بلوچ دانشور ڈاکٹر حنیف شریف نے کہا کہ میں پہلی دفعہ ڈاکٹر منان سے بولان میڈیکل کالج شال میں ملا۔ وہاں مجھے چند دوست ملے ان میں ڈاکٹر منان بلوچ بھی شامل تھے۔ ان میں کوئی جھوٹی انا نہیں تھی۔ وہ ملنسار اور اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنے والے شخص تھے۔ وہ ایک عام آدمی سے ایک لیڈر بنے مگر اس کے باوجود اس کا رویہ ایک عام شخص جیسا تھا۔ عام طور پر جب کوئی لیڈر بن جاتا ہے اور طاقت اور فیصلہ کرنے کی اتھارٹی اس کے پاس آجاتی ہے تو وہ بدل جاتا ہے لیکن ڈاکٹر منان بلوچ ان میں سے نہیں تھے۔ وہ لیڈر ہونے کے باوجود ایک عام بلوچ تھے۔ یہ خوبی دوسرے بلوچ رہبروں میں بہت کم ہے۔ وہ اپنے ممبروں اور عام لوگوں سے رابطے رکھنے اور انہیں ڈھونڈنے والے رہبر تھے۔ وہ ہر وقت لوگوں سے سنتے تھے اور اپنے اور اپنی تنظیم اور تحریک کے بارے میں ان کی رائے پوچھتے تھے۔ وہ سب کی سنتے تھے اور جس کی بات انھیں اچھی لگتی، وہ اس پر عمل کرتے تھے۔
ڈاکٹر حنیف شریف نے کہا وہ ہر ایک کےغم میں شریدار تھے۔ وہ کسی سے مقابلہ نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ اگر وہ کہیں بھی محسوس کرتے کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے، کسی کتاب کی ضرورت ہے وہ اسے ضرور کہیں سے ڈھونڈ کر لانے کی کوشش کرتے۔ آج بی این ایم سڑکوں پر احتجاج نہیں کر سکتی، لیکن یہ کیا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کا فائدہ اٹھاکر لوگوں سے رابطہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
سینئر جوائنٹ سیکریٹری کمال بلوچ نے کہا کہ ان کی زندگی کے کئی پہلو ہیں۔ ان کے حصول علم، سیاست، سوشل کاموں میں، ہر شعبے میں ایک جنونیت پائی جاتی تھی۔ کمال بلوچ نے بی بی سی اور دنیا کے معروف لکھاری وسعت اللہ خان کے شہید صبا دشتیاری پر لکھے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بڑے انسان دماغ سے نہیں دل سے فیصلہ کرتے ہیں اور دل سے کیے فیصلہ غلط نہیں ہوا کرتے۔ میں نے ڈاکٹر منان سے کہا تھا کہ آپ بھی دل سے فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے ہمیں ایک راستہ دکھایا ہے۔ وہ قربانی کے جذبہ پر بہت زور دیتے تھے۔ ڈاکٹر منان کی قربانی کے فلسفے اور قوم دوستی کےجذبہ کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے ں۔ ہمیں ڈاکٹر کو سمجھنے کے لیے ایک عمر کی ضرورت ہے جہاں ہم پوری طرح سے ان کی زندگی کا مطالعہ کرسکیں۔ وہ بچپن سے تکالیف کا شکار شخص رہے اور انھوں نے نہایت مخدوش حالات میں تعلیم حاصل کی۔
کمال بلوچ نے بابو نوروز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ان سے قربت شال میں حصول تعلیم کے دوران ہوئی۔ وہ ایک پختہ شخص اور کامل انسان اور صاحب علم تھے۔ انھوں نے حمید شاہین جیسے لوگوں کو آگے لانے میں کردار ادا کیا۔ اسی طرح شہید اشرف بھی ایک سرگرم سیاسی کارکن اور بی ایس او آزاد کے سابق سی سی ممبر تھے۔ شہید حنیف اور چھوٹے ساجد جان سب علم و شعور سے آراستہ تھے۔
کمال بلوچ نے کہا کہ شہداء کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ ان کے فکر و فلسفہ کو آگے منزل کی جانب لے جانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ادارے بنانے ہوں گے۔ پاکستان کی سیاسی اور معاشی بدحالیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنی قوم میں شعور پیدا کرنا ہے تاکہ ہم سب مل کر پاکستان کی گرتی دیوار کو ایک دھکا اور دیں۔ ہمیں ڈاکٹر منان کی طرح اس سیاست میں جنونیت اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ قوم کی غلامی سے نجات کا یہی واحد ذریعہ ہے۔