سی پیک کا سامراجی منصوبہ اور گوادر کی چیخ ۔ زلفی پاسون

501

سی پیک کا سامراجی منصوبہ اور گوادر کی چیخ

تحریر: زلمی پاسون

دی بلوچستان پوسٹ

سامراجی منصوبے سی پیک کے دل گوادر میں 2016ء سے شروع ہونے والے چھوٹے چھوٹے احتجاجی مظاہروں میں معیاری تبدیلی 2019ء کے وسط جون اور جولائی میں اس وقت آئی جب مکران ڈویژن کو ایران سے آنے والی بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ آنا شروع ہوئی۔ یہ شدید گرمی کا موسم تھا اور اس وقت بجلی کی آنکھ مچولی کے خلاف مکران ڈویژن کے مظلوم و محکوم عوام بول اٹھے اور پورے مکران ڈویژن کے بڑے بڑے شہری مقامات پر احتجاج اور دھرنوں کا آغاز ہونے لگا۔ یوں مکران ڈویژن کے محنت کش عوام پانی اور بجلی سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی کی عدم فراہمی کے خلاف متحد ہوگئے۔ یہ احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ایک بڑی مزاحمتی تحریک کی شکل اختیار کر گئے اور گوادر شہر میں 32 روزہ کامیاب احتجاجی دھرنا ہوا۔

بالآخر بلوچستان کے وزیراعلیٰ سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو تمام دھرنے میں خود آ کر مطالبات تسلیم کرنے پڑے، اور انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں شریک احتجاجی مظاہرین کے سامنے تحریری معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے بعد تسلیم شدہ مطالبات کے حوالے سے کچھ اصلاحات بھی ہوئیں۔ مگر 27 اکتوبر 2022ء کو حق دو تحریک کی قیادت نے ایک بار پھر اپنے تمام تسلیم شدہ مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف احتجاجی دھرنا شروع کر دیا۔

یہ احتجاجی دھرنا 26 دسمبر 2022ء تک مختلف نشیب و فراز کے ساتھ جاری رہا مگر نااہل صوبائی حکومت اور قیادت کے درمیان اعتماد کی فقدان کی وجہ سے بالآخر صوبائی وزیر داخلہ نے ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پر امن احتجاجی مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان زخمی ہوئے اور بیسیوں کو گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا گیا۔ اس طرح پورے شہر میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

سی پیک منصوبہ کیا ہے؟

اپریل 2015ء میں سی پیک کے منصوبے کا اعلان ہوا تھا۔ شروع میں اس منصوبے کا حجم 46 ارب ڈالر تھا جو کہ اُس وقت پاکستان کے کل جی ڈی پی کا 20 فیصد تھا۔ کچھ ہی عرصے میں اس منصوبے کا حجم 60 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ 2015ء میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر اعلان کے بعد جوں ہی اس پر عمل درآمد شروع ہونے والا ہی تھا کہ پاکستان کے سامراج گماشتہ حکمرانوں کی رالیں ٹپکنا شروع ہو گئیں۔ وہ اتنے بڑے ٹھیکوں میں کمیشنوں کا حجم سوچ کر ہی آپے سے باہر ہونے لگے۔ بالخصوص فوجی اشرافیہ جو کہ پروفیشنل دفاعی ادارے کی بجائے ایک لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہے، کے جرنیلوں اور کرنیلوں نے اس منصوبے میں اپنا حصہ بٹورنے اور لوٹ مار کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔

سی پیک منصوبہ چین کیلئے سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے اور اس کا مقصد صرف لوٹ مار ہی ہے۔ اسی لیے جب یہ منصوبہ شروع ہوا تھا تو ہم نے تب ہی اس کے حوالے سے یہ لکھا تھا کہ اس سے ملک میں کسی قسم کی کوئی ترقی نہیں آئے گی بلکہ الٹا قرضوں کے انبار لگیں گے اور بالخصوص بلوچستان کے محنت کش عوام کو مزید جبر کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سی پیک منصوبے کا دل کہلائے جانے والے گوادر شہر کے محنت کش عوام کو شدید ریاستی جبر کا سامنا ہے۔ گوکہ پاکستان میں اس سامراجی منصوبے کا دل گوادر سمجھا جاتا ہے مگر درحقیقت اس منصوبے کے تمام فوائد پنجاب کے چند بڑے شہروں تک محدود رہے ہیں۔ سی پیک کی ضمن میں اب تک بلوچستان میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی بلکہ یوں کہیں کہ ترقی تو درکنار بلکہ یہ نام نہاد سامراجی منصوبے کی وجہ سے بلوچستان کے مظلوم و محکوم عوام کو مختلف حوالے سے نشانہ بنایا گیا۔ گوادر میں زیرتعمیر سمندری بندرگاہ ایک ایسے سمندری رستے پر واقع ہے جہاں سے دنیا کی تیل کی تجارت کا 20 فیصد حصہ گزرتا ہے۔ عرب دنیا کے خلیجی ممالک اور ایران کا تیل دنیا بھر میں اسی رستے سے گزر کر جاتا ہے۔ انہی تنازعات کی وجہ سے پچھلی دو دہائیوں سے گوادر کے سمندری بندرگاہ پر کام جاری ہے۔ منصوبے کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے گوادر کے ضمن میں بالخصوص اور بلوچستان کے حوالے سے بالعموم ان حالات کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے کیونکہ گوادر میں چلنے والی عوامی تحریک کا اس سامراجی منصوبے کے ساتھ بلا واسطہ تعلق ہے۔

سی پیک اور گوادر

گزشتہ سات سالوں سے چھوٹے بڑے احتجاجوں نے جس تحریک کو جنم دیا اس نے ”سی پیک“ کی تمام قلعی کھول دی۔ اس منصوبے نے گوادر کے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ گوادر کے باسیوں کا 80 فیصد سے زیادہ ذریعہ معاش ماہی گیری ہے، جس پر اب تلوار لٹک رہی ہے۔

ماہی گیروں پر لگنے والی پابندی کے خلاف انہوں نے وقتاً فوقتاً احتجاج کئے اور ایک حد تک اپنے مطالبات منوا بھی لئے مگر اب ان کے روزگار اور دیگر معاملات زندگی پہلے جیسے نہیں رہے۔ اگرچہ پہلے بھی ان کے حالات کوئی بہت اچھے ہر گز نہیں تھے، مگر اب تو صورت حال انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔ حالانکہ گوادر ماہی گیر اتحاد نے بارہا چینی سامراج کے اعلیٰ حکام کے سامنے اپنے مطالبات بلاواسطہ طور پر پیش کیے مگر ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے گئے۔ صحت، تعلیم، روزگار، پانی، بجلی اور دیگر انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ گوادر کی زمینوں کو پراپرٹی مافیا نے ایسا بلبلا بناکر پیش کیا جس میں پورے پاکستان کے خصی سرمایہ داروں نے دل کھول کر سرمایہ کاری کرتے ہوئے گوادر کے مظلوم عوام پر ان کی زمین تنگ کر دی۔ بعض اوقات گوادر شہر کو بلوچستان کے دیگر علاقوں سے کاٹنے کے لیے فینسنگ کے ذریعے محصور کرنے کی نوبت آگئی۔

اس ضمن میں ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں بڑے بڑے تعمیری منصوبوں کا برائے نام آغاز کردیا گیا اور گوادر شہر میں سی پیک کے نام پر لوٹ مار کے بازار کو گرم کر دیا گیا۔ جبکہ گوادر اور اُس کے مضافاتی علاقوں کے تمام مظلوم و محکوم عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم کر دیا گیا۔ جہاں پر نام نہاد دہشت گردی کے نام پر ماہی گیروں پر ان کے روزگار کے دروازے مختلف حربوں سے بند کیے جانے لگے، اور نام نہاد تعمیری منصوبوں کی وجہ سے سمندر میں جانے کے لیے ان کے رستوں کو بند کیا جانے لگا اور چھوٹے سے بڑے مسئلے کے لئے ماہی گیروں کو اپنا روزگار چھوڑ کر احتجاج کا راستہ اپنانا پڑتا تھا۔ جس میں انہیں اکثر اوقات کامیابی تو ملتی مگر وہ جزوی کامیابی ہوتی تھی۔

صحت و تعلیم کے حوالے سے گوادر کے عوام کو بلوچستان کے دیگر مضافاتی علاقوں کی طرح اب تک محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گوادر میں اس وقت کوئی معیاری ہسپتال موجود نہیں ہے اور ایک چھوٹی سی قابل علاج بیماری کیلئے تربت یا کراچی جانا پڑتا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گوادر کی حقیقی صورتحال کیا ہے۔ جبکہ ”سی پیک“ کی آڑ میں گوادر محض سمندری راستے کی فراہمی تک محدود ہے،ا س کے ساتھ ساتھ وہاں پر سمندر کے قریبی مہنگے ترین علاقوں پر فوجی اشرافیہ و سول اشرافیہ نے قبضہ کرلیا ہے، جس سے اُن کے عزائم کا ادراک باآسانی کیا جاسکتا ہے۔

تعلیمی صورت حال بھی کچھ اسی طرح ہے جہاں پر کوئی معیاری تعلیمی ادارہ وجود نہیں رکھتا۔ گوادر جو کہ جغرافیائی حوالے سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے بہت دور ہے، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گوادر کے نوجوانوں کو مجبوراً کراچی جانا پڑتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے گوادر میں یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں مگر غاصب ریاست،نا اہل صوبائی حکومت اور کرپٹ بیوروکریسی صرف اعلانات تک ہی محدود ہے۔ جبکہ کئی بار وزرائے اعظم نے دورے بھی کئے ہیں اور اس کے پاس ایک سکرپٹڈ تقریر کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔

گوادر میں پانی اور بجلی جیسی اہم اور بنیادی ضرورت کے لئے گوادر کے باسیوں کو احتجاج کرنا پڑتا ہے اور اس مسئلہ کو نااہل حکمران، فوجی اشرافیہ اور کرپٹ بیوروکریسی حل کرنے کی بجائے الٹا ان پر ریاستی جبر کرتے ہیں۔

گوادر شہر میں انفراسٹرکچر کی صورتحال بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ صرف شہر کے باہر چند بڑی سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ مگر ان کا مقصد بھی کرپشن ہے۔ اس انفراسٹرکچر کو تعمیر کرنے کے لیے بھی ”گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ نے ہی فنڈز مہیا کئے ہیں جن کے پاس اپنے ذرائع آمدن بھی ہیں مگر کرپٹ بیوروکریسی کی جانب سے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذرائع آمدن کو بھی اونے پونے داموں یا تو بیچا جا رہا ہے یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہو کر اُن پر فوجی اشرافیہ قابض ہو چکی ہے۔

گوادر شہر میں ایسے بڑے بڑے عوامی اداروں کی تعمیرات و زمینوں پر فوجی اشرافیہ قبضہ کر چکی ہے جس سے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام بالا یا باالفاظ دیگر کرپٹ بیوروکریسی کے خصی پن کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ایک طرف گوادر میں بڑے بڑے سی پیک کے روٹس موجود ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب چند قدموں کے فاصلے پر شہر کے تباہ حال انفراسٹرکچر سے چینی سامراج اور سامراج کے گماشتہ پاکستانی حکمران طبقے کا خصی پن بھی ظاہر ہوتا ہے۔

اب بھی شہر کی اہم چوراہوں اور گلیوں میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہوتا ہے جبکہ مقامی انتظامیہ محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ گوادر شہر کے اہم چوراہے ”ملا فاضل چوک“ پر کھڑا بدبودار سیوریج کا پانی اس کی مثال ہے۔ مختصر یہ کہ سی پیک کا کوئی بھی عوامی مفاد پر مشتمل ایسا ادارہ نہیں ہے جس سے گوادر سمیت پورے مکران ڈویژن کے مظلوم محنت کش عوام کو فائدہ مل سکے۔ سی پیک کے سامراجی منصوبے میں گوادر میں صرف دو طرفہ سڑک تعمیر کی گئی ہے جو کہ گوادر کے باسیوں کے لئے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ دو طرفہ شاہراہ بلا کسی روک ٹوک کے بندرگاہ تک جاتی ہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ کچھ چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس، جو کہ ریاست پاکستان یا چینی سامراج کی جانب سے بنے ہیں، وہ بھی عوام کی جدوجہد کی ہی مرہون منت ہیں۔ جن میں چند پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور ٹیکنیکل سینٹرز سمیت چینی سکالرشپس شامل ہیں۔

حالیہ حق دو تحریک کے حوالے سے بھی یہاں پر چند اہم نکات کی جانب اشارہ کرنا لازمی ہے کیونکہ یہ تحریک بلاوسطہ اسی سامراجی منصوبے کی شروع سے لے کر اب تک مختلف مراحل سے گزر کر نمودار ہوئی ہے۔

حق دو تحریک اور قیادت کی محدودیت

جس طرح ہم نے تحریر کے آغاز میں یہ واضح کیا تھا کہ ”سی پیک“ کے منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی گوادر میں چھوٹے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا جن کا معیاری اظہار ”حق دو تحریک“ کی شکل میں ہوا۔ اس تحریک نے گزشتہ دو سالوں میں دو اہم دھرنے دیے ہیں جن میں 2021ء کا دھرنا کافی حد تک کامیاب رہا۔ جبکہ 2022ء کے آخر میں شروع ہونے والے دھرنے کو ریاست نے جبر کے ذریعے اب تک سبوتاژ کیا ہے، لیکن تحریک اپنی جگہ بدستور موجود ہے، جو کہ جلد یا بدیر اپنا اظہار کسی اور شکل میں کرسکتی ہے۔

حق دو تحریک کی قیادت نے اس تحریک کو محنت کش طبقے کی عمومی تحریک کے ساتھ جوڑنے اور پھیلانے کی بجائے ایک مخصوص پارٹی کے ایجنڈے اور مفادات کے تابع کر دیا ہے۔

”حق دو تحریک“ کی قیادت پر شروع دن سے لے کر آج تک ہمارا ایک دوستانہ تنقیدی رویہ رہا ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قیادت اب اس تحریک کو آگے لے جانے کی بجائے اس کے رستے کو محدود کر رہی ہے۔ اس تحریک کو محنت کش طبقے کی عمومی تحریک کے ساتھ جوڑنے اور پھیلانے کی بجائے ایک مخصوص پارٹی کے ایجنڈے اور مفادات کے تابع کر دیا گیا ہے۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں؛ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی نئی قیادت، نئے لوگ یا نئے چہرے نہیں ہیں بلکہ پرانے لوگ ہیں جن کی یہاں پر انتہائی دائیں بازو کی ایک منظم اور ریاست کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے والی جماعت سے تعلق ہے۔ جس وقت پورے مکران ڈویژن کے لوگ سڑکوں پر موجود تھے تو اُس تحریک سے الگ مذکورہ پارٹی کی قیادت نے احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب مذکورہ عوامی احتجاجی تحریک بغیر کسی منتخب قیادت کے چل رہی تھی اور وہاں پر عوامی غم و غصہ بالخصوص مختلف قوم پرست پارٹیوں کے حوالے سے شدید نفرت کی صورت میں سامنے آرہا تھا توقیادت کے خلا کے باعث یہ حادثاتی قیادت ابھر کر سامنے آئی تھی۔

اب اہم بات سمجھنے والی یہ ہے کہ اس وقت تحریک کہاں کھڑی ہے۔ قیادت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی پرت کا ہم ذکر کریں تو عوامی سطح پر چند خدشات کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ تحریک کی قیادت کی جانب سے مسلح جدوجہد کو گلوریفائی کرنے کے حوالے سے دو اہم وجوہات سامنے آتی ہیں۔ پہلی وجہ تحریک کی قیادت کی جانب سے کوئی واضح پروگرام اور حکمت عملی نہ ہونا ہے۔ جبکہ دوسری وجہ نادیدہ قوتوں کی ایماء پر عوامی جدوجہد کو بلوچستان میں معدوم سمجھنا اور مسئلہ کا حل صرف بندوق قرار دینا ہے۔ مسلح گروہوں کی یہ کوشش ہے کہ بلوچ عوام عوامی جدوجہد سے متنفر ہوکر پہاڑوں کا رُخ کریں۔ مگر اب بلوچ سماج شعوری طور پر جدوجہد کے حوالے سے کافی تجربہ حاصل کر چکا ہے اور یہ غلطی ہرگز نہیں کرے گا۔ مڈل کلاس کی ایک مخصوص پرت سے ہٹ کر بالعموم سماج اب عوامی جدوجہد کو ہی راہ نجات سمجھنے لگا ہے۔

تحریک کی قیادت پر حالیہ جبر کے بعد کچھ وقت کے لیے ایک دھڑے کا وقتی طور پر روپوش ہونا بھی چند اہم شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ جس سے ہم مختصر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کسی بھی تحریک کی قیادت اس تحریک کی ہی جنم دی ہوئی ہوتی ہے۔ گوکہ پروگرام کی واضح موجودگی اپنی جگہ پر ایک سوال بنسکتا ہے، مگر جس طریقے سے ”حق دو تحریک“ کی قیادت کا سوال ہے تو یہ کھل کر تحریک کے مینڈیٹ سے انحراف کرتے ہوئے ان کو محض انتخابی مفادات کے لئے استعمال کرنے میں مگن رہے۔ جس سے تحریک کی پذیرائی میں بھی کمی آنے لگی اور اب گوکہ تحریک اپنی جگہ پر موجود ہے مگر قیادت کے حوالے سے سوالات تاحال جواب طلب ہیں۔

سی پیک اور بلوچستان

منصوبے کے آغاز میں پورے پاکستان میں تنگ نظر قوم پرستوں کی جانب سے سی پیک کے روڈ پر احتجاج کئے گئے کہ سی پیک کا روٹ یہاں سے گزرنا چاہیے اور وہاں سے نہیں۔ ان مظاہروں کو گوکہ کوئی کوریج نہیں ملی اور نہ ہی یہ مطالبے منظور ہو سکے صرف بلوچستان کی حدود میں چند اہم شاہراہوں کو ”سی پیک“ کا نام دیا جانے لگا جو کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے بنائی تھیں۔ اس سے بڑھ کر بلوچستان کے حصے میں سی پیک کی ضمن میں صرف اعلانات ہی ہوئے ہیں جبکہ زیادہ تر پراجیکٹ پنجاب میں ہی بنے۔ اس حوالے سے بلوچستان سمیت خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے تنگ نظر قوم پرستوں نے محض اپنا حصہ بٹورنے کے لیے آواز اٹھائی اور عوامی مفاد کو وہ شروع دن سے نظر انداز کرتے رہے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ تنگ نظری کی سیاست کرنے والے قوم پرست اور گماشتہ ریاست کے گماشتہ حکمرانوں کے دلال صوبائی حکمرانوں نے مل کر فوجی اشرافیہ کے سامنے سجدہ ریزی کرنے اور ان کی مرضی و منشا کے خلاف بات کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ اس کی وجہ سے وہ عوامی حمایت بھی کھو بیٹھے۔ اس کی ایک اور حالیہ مثال ریکوڈک پراجیکٹ ہے جس میں دلال حکمرانوں نے دلالی کی اور تنگ نظر قوم پرستوں نے اپنی پیٹ پوجا کے لیے برائے نام چند احتجاج کیے اور بازاری زبان استعمال کی۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ بلوچستان کے کسی بھی کونے میں جب کوئی روڈ بن رہا ہوتا ہے تو اس کو نام نہاد دلال حکمران سی پیک پراجیکٹ کا حصہ کہتے ہوئے شرماتے بھی نہیں۔ ہم اس تحریر کے ذریعے ان نااہل اور دلال حکمرانوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ سی پیک کے سامراجی منصوبے نے بلوچستان کے عوام کے لئے کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہائی ہیں اگر بہائی ہیں تو بتایا جائے کہ کونسا پراجیکٹ سی پیک کی مد میں ہے جو کہ بلوچستان کے عوامی مفاد کے پیش نظر بنایا گیا ہے۔

گوکہ ہمیں بحیثیت مارکس وادی پنجاب میں اس نام نہاد سامراجی پراجیکٹ کے تحت ہونے والی نام نہاد ترقی پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ ان تمام تر پراجیکٹس کے ذریعے پنجاب کے عام محنت کش عوام کو کوئی اس طرح کی دودھ اور شہد کی نہروں میں ڈوبنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس کے برعکس وہاں کے محنت کش عوام کا روزگار چھینا جاتا ہے جبکہ دلال حکمران اور فوجی اشرافیہ وہاں پر بھی ان نام نہاد پراجیکٹس کے ذریعے اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لئے لوٹ مار کے بازار کو گرم کرتے ہیں۔ مگر بالعموم یہ ایک اہم سیاسی سوال ہے کہ جہاں کے وسائل سے وہاں کے مقامی لوگ آباد نہ ہوں اور انہیں کوئی فائدہ نہ ملے تو ایسے پراجیکٹ محض لوٹ مار کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں نہ کہ ترقی و خوشحالی کے لئے۔

سی پیک کا اہم اور بنیادی مقصد ایک طرف اگر وسائل کی لوٹ مار ہے، تو دوسری جانب چینی سامراج کی اس خطے سمیت مشرق وسطیٰ میں بھی تزویراتی گہرائی کی پالیسیاں مرکوز ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شی ایٹیو (BRI) پراجیکٹ کو دنیا بھر کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں کم از کم 900 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی شکل میں لانچ کیا گیا۔ جوکہ اب تک نام نہاد دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بڑا عالمی پراجیکٹ ہے۔ اس سے بڑھ کر اس پروجیکٹ کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ مگر اس پراجیکٹ کی مد میں جتنے وعدے کیے گئے تھے ان پر بھی اب تک چینی سامراج کے معاشی بحران کی وجہ سے سوالات اٹھ گئے ہیں کہ آیا یہ پایہ تکمیل تک پہنچیں گے بھی یا نہیں۔ ایسے بے شمار پراجیکٹ ہیں جو کہ سی پیک کی آڑ میں بننے تھے مگر اب تک نہیں بن پا ئے ہیں۔ اس میں ایک طرف جیسا کہ چینی سامراج کے اندرونی معاشی بحران کا کردار ہے جبکہ دوسری جانب پاکستانی ریاست کے بھی اپنے آبائی آقا امریکی سامراج کے ہاتھوں مجبوری ہے جس میں اکثر اوقات دونوں سامراجی ممالک کے درمیان گہرائی کے ایسے منصوبے تنازعات کے شکار بن جاتے ہیں۔

وسائل کی لوٹ مار اور سسکتی عوام

بلوچستان سے وسائل کی لوٹ مار کی کہانی ایک پرانی روایت بن چکی ہے۔ جہاں اس نئی ریاست کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے۔ اس ضمن میں صرف دو اہم مثالیں کافی ہیں۔ پہلی مثال بلوچستان کے مضافاتی علاقے ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے قدرتی گیس کا جو ذخیرہ پیدا ہوا تھا اس سے آج تک گیس نکالی جا رہی ہے جو کہ ایک طرف پاکستان کے دور دراز مقامات اور بالخصوص پنجاب تک جاتی ہے جہاں پر سرمایہ داروں کے بنائے گئے کارخانوں کے لیے گیس فراہم کی جارہی ہے۔ مگر ڈیرہ بگٹی کے باسیوں سمیت بلوچستان کی نصف سے زیادہ آبادی سوئی گیس کے سہولت سے یکسر محروم ہے۔ حالانکہ بلوچستان کے شمالی علاقہ جات میں شدید سردی میں گیس جیسی سہولت کا نہ ہونا زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ سال کے آخر میں ریکوڈیک کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا گیا جس میں معاہدے کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے صرف اس علاقے کی زبوں حالی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو کافی ہوگا۔ ضلع چاغی کے علاقے میں واقع ریکوڈک موجود ہے۔ مگر وہاں پر دو لاکھ بائیس ہزار کی آبادی کے لئے صرف نو ڈاکٹر موجود ہیں جبکہ ہر دوسرا آدمی ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مرض میں مبتلا ہے۔ ضلع کی تمام آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے ایسے امراض جنم لیتے ہیں جو کہ قابل علاج ہوتے ہیں مگر صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی سے اکثر اوقات لوگ مر جاتے ہیں۔ اب بھی کی 75 فیصد آبادی بجلی جیسی بنیادی ضرورت یا سہولت سے محروم ہے۔ ذریعہ معاش کے حوالے سے ایران اور افغانستان کے ساتھ منسلک بارڈر ٹریڈ پر لوگ زندگی کا گزر بسر کرتے ہیں۔ اسی طرح گوادر کے حوالے سے بھی اوپر بحث کی جاچکی ہے کہ وہاں پر اربوں ڈالر کے منصوبے کے باوجود عام محنت کش عوام استحصال اور کرب سے دوچار ہیں۔

اس بحث کا مقصد یہ ہے کہ وسائل کی لوٹ مار جس بے دردی سے جاری ہے اس سے زیادہ بے دردی سے عوام کو جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس طرح عظیم مارکسی استاد لینن نے کہا تھا کہ ”قومی سوال آخری تجزیے میں روٹی کا سوال ہے“ اور روٹی کا حصول وسائل کی موجودگی اور ان کی عوامی سطح پر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

وسائل کی بے دردی سے لوٹ مار اور ان سے عوام کی محرومی ایسے جذبات کو جنم دیتا ہے جس کا اظہار اس وقت بلوچستان میں عمومی سطح پر ریاست سے نفرت اور اس کے خلاف جدوجہد کے مختلف طریقہ کار کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بطور مارکس وادی ہم ایک ملک میں وسائل کی تقسیم کار کے خلاف نہیں ہیں جس طرح تنگ نظر قوم پرست کے ہاں جذبات پائے جاتے ہیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں پر وسائل پائے جاتے ہیں کم از کم ان وسائل سے حاصل ہونے والے ثمرات سے مقامی لوگوں کو فائدہ ملنا چاہیے۔ جس کی کوئی مثال پاکستان میں نہیں ملتی۔ مگر یہاں پر اس چیز کو بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے وسائل کی لوٹ مار تو جاری رہے گی مگر عوامی سطح پر ان کا کنٹرول تو درکنار بلکہ عام مظلوم عوام کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا جس کی مثالیں اوپر دی جا چکی ہیں۔

سرمایہ داری کی لعنت؛ لوٹ مار اور قومی جبر

اس ضمن میں چند ایسے نظریاتی اور سیاسی سوالات ابھرتے ہیں کہ جن کا جواب دینا یا ڈھونڈنا ہر ذی شعور سیاسی کارکنان کا اہم فریضہ ہے۔ سب سے پہلے یہ سوال کہ کیا سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے وسائل کی لوٹ مار اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قومی جبر کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا تو کیا وسائل کی لوٹ مار اور قومی جبر کا کوئی جواز باقی رہے گا؟ کیا سوشلزم کا نفاذ قومی جبر کے خاتمے اور قومی سوال کو حل کئے بغیر ممکن ہو سکتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہم انسانی تاریخ کے سب سے اہم واقعہ عظیم انقلاب روس ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب روس کے بعد محنت کش طبقے کی قیادت میں قومی سوال کو انتہائی احسن طریقے سے حل کر دیا گیا تھا۔ زار شاہی کے دور میں مظلوم قومیتوں پر انتہائی جبر کیا جاتا تھا جس کے بارے میں لینن نے کہا تھا کہ روس ”مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ ہے“۔

جبکہ دوسری جانب سوالات کے جوابات کو اگر ٹھوس طریقے سے دینے کی کوشش کی جائے تو آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب سرمایہ داری نہیں رہے گی، تو ’سرمایہ‘ اور اُس کا ایجنٹ یعنی سرمایہ دار بھی نہیں رہے گا۔ لہٰذا جب ذاتی ملکیت کا خاتمہ ہو جائے گا تو وسائل کی لوٹ مار کیونکر ہو گی؟ جب وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ ختم ہوگا تو قومی جبر کا حتمی طور پر خاتمہ ہوگا۔ سرمایہ داری کے خاتمے کا متبادل سوشلزم ہے، اور یہ بات بھی عظیم انقلاب روس سے ثابت ہوچکی ہے کہ سوشلزم کا نفاذ قومی جبر کے خاتمے اور قومی سوال کو حل کیے بغیر ناممکن ہے۔

اس لئے ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے قومی جبر کا خاتمہ محض ایک یوٹوپیا ہے۔ جس کی تاریخی طور پر بے شمار مثالیں موجود ہیں اور اس نظام کے ہوتے ہوئے قومی سوال کے نیم حل شدہ سوالات بھی سر اٹھا چکے ہیں۔ عالمی بورژوازی کے نمائندگان تمام جمہوری مطالبات کو آج اپنے پاوں کے نیچے روند رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے موجودہ عالمی بحران نے اس وقت ذاتی ملکیت اور قومی ریاست کو ترقی کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا دیا ہے۔

وسائل کی لوٹ مار اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قومی جبر کی ہم بہر صورت نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ ان کے خلاف مزاحمت کیساتھ ساتھ اپنی صفوں کو بھی درست کر رہے ہیں۔ اُن تمام سنجیدہ اور باشعور سیاسی کارکنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ظلم، جبر، بربریت اور استحصال کی ہر شکل کو مٹانے کے لیے مارکسزم کے انقلابی نظریات سے خود کو لیس کرتے ہوئے اس ناگزیر جدوجہد کا حصہ بنیں۔ اور حقیقی بنیادوں پر ایک انسان دوست معاشرے کی تکمیل اور اسی دنیا میں جنت کی تعمیر کو ممکن بنانے میں ہراول دستے کا کردار ادا کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں