بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ریاستی آلہ کار اور حواریوں نے پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر بلوچستان میں قتل و غارت اور عام عوام پر جبر کی پہاڑ کھڑی کی ہوئی ہے۔ ریاستی پشت پناہی اور ریاستی طاقت کے بل بوتے پر بلوچ عوام کو نشانہ بنانے اور قتل عام کرنے والے حواریوں نے نہتے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سردار عبدالرحمن کھیتران کے نجی جیل میں عرصہ دراز سے خان محمد مری کی اہلیہ اور بچے پابند سلاسل تھے جن کو رواں ہفتے سفاکانہ طورپر قتل کر کے اُن کی لاشیں کنویں میں پھینک دی گئیں۔ سردار عبدالرحمن کھیتران کے جبر کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ انھوں ریاستی پشت پناہی میں سینکڑوں ایسے گھناؤنے قتل کیے لیکن طاقت اور تشدد کے بنیاد پر خوف پھیلانے کے سبب یہ کیسز میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئیں۔ سردار عبدالرحمن کا ماضی اس طرح گھناؤنے واقعات سے بھری پڑی ہے اور ان کے ہاتھ بلوچ عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ سردار عبدالرحمن کھیتران عرصہ دراز سے ایک ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں بلوچ قومی تحریک کو کچلنے اور بلوچ قوم میں تضادات کو جنم دینے کےلیے ریاست نے عبدالرحمن کھیتران کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا اور انھیں ہر طرح سے لیس کیا گیا۔ اسی عرصے میں عبدالرحمن کھیتران کو ایک وار لارڈ کی حیثیت حاصل تھی اور اس نے اپنا نجی جیل بنایا ہوا تھا جہاں بلوچ آزادی پسندوں اور سیاسی کارکنوں سمیت عام عوام کو نہ صرف پابند سلاسل کیا جاتا بلکہ انھیں ٹارچر کرنے کے بعد انکی لاشیں پھینکی جاتیں۔ عبدالرحمن کھیتران خود ایک آلہ کار ہیں اور ان کے زیر سایہ کئی جتھے تشکیل دیے ہوئے ہیں جنھوں نے نہتے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ سردار عبدالرحمن کھیتران ریاستی پیدا کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے واحد شخص نہیں ہیں بلکہ بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈز مختلف افراد کے جتھوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ شفیق مینگل کا شمار بھی بدترین زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے طور پر کیا جاتا ہے اور انھوں نے بھی اس طرز سے نجی جیل تشکیل دیے ہوئی ہیں اور انھوں نے بلوچ سیاسی کارکنوں اور نہتے عوام کو قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کیا۔ اس طرح مکران بھر میں ڈیتھ اسکواڈز کے مختلف جتھے ریاستی پشت پناہی میں بلوچ عوام کا قتل عام کر رہے ہیں۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ پاکستانی ریاست بلوچ عوام کو قومی تحریک سے دور رکھنے اور اپنے قبضے کو طویل المدتی بنیادوں پر جاری رکھنے کےلیے زرخرید حواریوں اور کاسہ لیسوں کو بروئے کار لا کر بلوچ عوام کی نسل کشی کرتی آ رہی ہے۔ بلوچ عوام کو اب سمجھنا ہو گا کہ اُن کا اجتماعی اور قومی بقا بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک سے ہی وابسطہ ہے اور قومی آزادی ہی خوشحال اور پرامن بلوچستان کا ضامن ہے۔