پاکستان ورکرز فیڈریشن نے آئی ایل او اور یورپین یونین کے تعاون سے بلوچستان کے ضلع خضدار کے ایک مقامی ہوٹل میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا۔
جس میں ٹریڈ یونین کے نمائندگان، سماجی کارکناں، سکولوں کے اساتذہ کے علاوہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر مکاتب کے لوگوں سے نے شرکت کی۔
اس تربیت میں آرٹ کے طریقہ کار کو استعمال کیا گیا جو انتہائی آسان اور دلچسپ طریقہ ہے۔ شرکا نے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا، اس تربیت کا اصل مقصد مشفقت کرنے والے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا ہے کیونکہ بچے رنگوں سے پیار کرتے ہیں اور ان تصاویر سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کو اجاگر کر کے چائلڈ لیبر کی لعنت کو ختم کرنا ہے۔
ٹریننگ کرنے والے شرکا بالخصوص اساتذہ اپنے اپنے سکولوں میں جا کر بچوں کو یہی تربیت دیں گے کیونکہ بچے رنگوں سے پیار کرتے ہیں اور ایسی سرگرمیوں سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جب سکول کے بچے اپنی کمیونٹی میں دوسرے بچے جو کہ سکولوں سے باہر ہیں ان سے اس حوالے سے گفتگو کریں گے تب انہیں بھی سکول جانے کی کشش پیدا ہو گی اور وہ سکولوں کا رخ کریں گے ایسے بچوں کی مشقت میں کمی ہوگی اور سکولوں کے داخلوں میں اضافہ ہوگا۔
آخر میں مختار اعوان نے کہا کہ بچوں کی بنی ہوئیں تصاویر کی نمائش لگائی جائے گی اور کمیونٹی اور ہر مکتبہ فکر کے افراد کو اسے دیکھنے کی دعوت دی جائے گی۔ تاکہ انہیں بچوں کے ٹیلنٹ کا پتہ چل سکے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کا شمار دنیا کے ان خطوں میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔
بلوچستان میں ہزاروں بچے گھریلو حالات اور معاشی مشکلات کے ہاتھوں مجبور ہو کر محنت مزدوری کررہے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مشقت کرنے والے ان بچوں کو نہایت معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے۔ مختلف شعبوں میں مشقت کرنے والے مجبور بچوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن غیر مؤثر ہے یا پھر ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16سال سے کم عمر بچوں کو ملازمت پر رکھتا یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20ہزار روپے تک جرمانہ یا ایک سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، یہ دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے، جس کی مدت 2 سال تک بڑھائی جا سکتی۔
تاہم پاکستانی آئین کا یہ شک بلوچستان میں ناپید ہے۔ اور لاکھوں بچوں کا مستقبل اندھیرے میں ہے