جرمن حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ برس وسط ستمبر سے ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہونے کے بعد سے ایرانی انٹیلی جنس ایجنٹوں کی جانب سے جرمنی میں مقیم تارکین وطن ایرانیوں کی جاسوسی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
اخبار ’’ویلٹ ایم سونٹاگ ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو وفاقی حکومت نے انتہائی بائیں بازو کی ’’لنکے ‘‘ پارٹی کی معلوماتی درخواست کے جواب میں کہا کہ نوجوان خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد پورے ایران میں پھیلنے والی بدامنی کے باعث ایرانی حکومت کی جانب سے جرمنی میں بھی ایرانی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ایرانی اپوزیشن کی سرگرمیوں اور افراد کی جاسوسی بڑھا دی گئی ہے۔
جرمن حکومت نے بتایا کہ ایران میں حکمران اپوزیشن گروپوں اور افراد کو حکومت کے مسلسل وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ملکی انٹیلی جنس سروس نے جرمنی میں مقیم ، اسی طرح ایرانی پاسداران انقلاب سے منسلک 160 افراد کی شناخت بھی کی ہے۔ اخبار نے حکومت کے حوالے سے کہا کہ پاسداران انقلاب کی شدید جاسوسی سرگرمیاں خاص طور پر جرمنی میں اسرائیل اور یہودیوں کے وفادار اہداف پر مرکوز ہیں۔
جرمن انٹرنل سکیورٹی سروس نے جرمنی میں مقیم ایرانی حکومت کے مخالفین کو خبردار کیا تھا کہ وہ خاص طور پر ایران کے سفر کے دوران ہوشیار اور محتاط رہیں۔ انہوں نے اس امکان کی نشاندہی کی کہ ایرانی انٹیلی جنس سروسز جرمنی میں مقیم ایرانیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے جرمنی میں جاسوسوں اور مخبروں کو استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ بھی خبردار کیا گیا تھا کہ ایرانی سکیورٹی ان تارکین وطن کے اہل خانہ پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ انہیں خاموش رہنے پر مجبور کریں۔