توتک آپریشن کے بارہ سال، جبری لاپتہ 16 افراد واپس نہیں لوٹے

436

توتک سے حراست بعد جبری لاپتہ افراد تاحال منظرعام پر نہیں آسکے ہیں-

سالہ سال لواحقین راہ دیکھ رہے ہیں عدالتیں اور کمیٹیاں انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں یہ کہنا تھا توتک سے جبری گمشدگی کے شکار بزرگ محمد رحیم قلندرانی کے نواسوں کا جو گذشتہ بارہ سالوں سے اپنے نانا اور لاپتہ رشتہ داروں کے منتظر ہیں-

توتک میں پاکستانی فورسز کی جانب سے سال 2011 میں فوجی آپریشن کو آج بارہ سال مکمل ہوگئے فورسز نے آپریشن کے دوران توتک سے درجنوں افراد کو حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا تھا جبکہ فورسز نے دوران آپریشن دو نوجوان کو بھی قتل کردیا تھا۔

توتک آپریشن کو 12 سال مکمل ہونے پر آج بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ “بی ایس ایم اے” کی جانب سے سوشل میڈیا رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیمپئن بھی چلائی جارہی ہے جبکہ گذشتہ رات، لاپتہ قلندرانی خاندان کے عزیر، صحافیوں اور سیاسی کارکنان کا ٹوئٹر اسپیس بھی منعقد کیا گیا-

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے لاپتہ محمد رحیم کے نواسی ماہ نور بلوچ کا کہنا تھا پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف جب وہ عدالتوں اور کمیشنز کے سامنے پیش ہوئے تو انھیں ریاستی اداروں کی جانب سے دھمکایا گیا انھیں کیسز خارج اور خاموش کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا لیکن تمام تر کوششوں مجبوریوں کے باجود ہماری شنوائی نہیں ہوئی اور نا ہی ہمیں آج تک بتایا گیا کہ ہمارے پیارے کہاں اور کس حال میں ہیں-

لواحقین نے مزید کہا بلوچستان سمیت بیرون ممالک میں مقیم بلوچ سیاسی کارکنان توتک سے جبری لاپتہ انکے نانا محمد رحیم سمیت دیگر 15 افراد کی باحفاظت بازیابی کے لئے عالمی اداروں سے کردار ادا کرنے کی اپیل کریں جبکہ بلوچستان میں موجود سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حوالے سے انکی آواز بنیں-

خیال رہے خضدار میں 18 فروری 2011 کو پاکستانی فورسز نے توتک کے گاؤں کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی لی، کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی آپریشن میں گاؤں کے تمام مرد افراد کو ایک جگہ جمع کرکے فورسز اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا بعدازاں ان میں سے کئی افراد بازیاب ہوگئے لیکن 82 سالہ محمد رحیم خان قلندرانی اور اس کے خاندان کے دیگر 16 افراد بازیاب نہیں ہوسکیں۔

جبکہ مذکورہ علاقے توتک مژی سے اجتماعی قبریں ملی تھی ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی 2014 میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ ان قبروں سے کل ایک سو انہتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔

توتک سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عالمی انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک ہنگامی اپیل جاری کی تھی جبکہ لواحقین کی جانب سے مختلف اوقات میں مظاہرے کیئے جاچکے ہیں لیکن تاحال مذکورہ افراد بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔