ترکیہ اور شام میں آنے والے شدید زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 22,000 تک پہنچ گئی۔
ہلاکتوں میں یہ اضافہ شام میں زلزلے سے متاثرہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں اور دوسرے حصوں میں امدادی کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہونے کے نتیجے میں ہوا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں کہ ملبوں میں دبے ہوئے لوگوں میں اب تک کچھ زندہ ہوں گے۔
شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں تک صرف اقوام متحدہ کے نمائندوں کی رسائی ہے جس سے امداد سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ یہ علاقہ دس سال سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ بڑی پیمانے پر بمباریوں کے نتیجے میں وہاں اسپتال منہدم ہو چکے ہیں۔ بجلی اور ایندھن ناپید ہے اور معیشت تباہ حال ہے۔
اس سے قبل خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ نے بتایا تھا کہ ترکیہ کے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ایجنسی کے مطابق جمعرات تک 12 ہزار 873 افراد ہلاک ہو چکے تھے جب کہ 60 ہزار سے زائد زخمی تھے۔ شام میں 3162 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی جب کہ لگ بھگ پانچ ہزار افراد زخمی ہیں۔
ترکیہ کی مقامی نیوز ایجنسی ‘آئی ایچ اے’ نے رپورٹ کیا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ شہر انتاکیہ میں ریسکیو اہل کاروں نے ملبے کے ڈھیر سے تین روز بعد ایک لڑکی اور اس کے والد کو زندہ حالت میں نکالا۔ اسی طرح ‘ڈی ایچ اے’ نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ دیابکر میں ریسکیو رضاکاروں نے جمعرات کی صبح ایک خاتون کو زندہ نکالا ہے۔
ترکیہ کے جنوبی صوبوں میں زلزلے سے متاثرہ افراد شدید ٹھنڈ میں عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ کئی افراد یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ریسکیو اہلکاروں کے پاس ملبہ ہٹانے کے لیے درکار مشینری اور تجربہ نہیں ہے۔
ترکیہ میں اب تک نو ہزار 57 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار 950 بتائی جاتی ہے۔
ترک حکام کے مطابق ملک کے 10 صوبوں میں زلزلے سے ایک کروڑ 35 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔