بلوچ خواتین کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماما قدیر بلوچ

176

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آج 4947 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر میرپور خاص سندھ سے ایوب جاموٹ، الطاف جاموٹ، ثنا اللہ جاموٹ اور دیگر نے لواحقین سے اظہار یکجہتی ۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ یہ پرامن جدوجہد 2000 سے لیکر آج تک جاری ہے جس میں خواتین کی بہت بڑی قربانیاں ہیں۔ ان کی قربانیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اس وقت جدوجہد ایک ایسے مقام پر ہے جسے مختلف سمتوں سے تضادات انتشار پیدا کرنے کی کوشش کے ساتھ دشمن کی طرف کئی حربے آزمائے جارہے ہیں خاص کر مذہبی اور قبائلی عناصر کو جہد کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے –

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ سرزمین پر بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اب کوئی نئی بات نہیں کیونکہ 75 سالوں سے یہ عمل تسلسل سے جاری ہے اور مردوں کے خواتین کی بھی جبری گمشدگی معمول بنتا جا رہا ہے۔

گزشتہ روز کوئٹہ سے خواتین اور بچوں کا اغوا انسانیت کے دعویداروں علمبرداروں اور اسلامی ریاست کے منہ پر زوردار تمانچہ ہے، کوئی بھی اسلام یا کسی بھی مذہبی عقیدہ انسانیت کا احترام کرنے والے ریاست ایسے غیر انسانی و غیر اخلاقی حرکت کرنے والے کو اجازت نہیں دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کو بھی نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس سے قبل بھی ڈیرہ بگٹی سے بلوچ خواتین کو جبری طور پر اغوا کیا گیا۔ مری کے علاقے کاہان میں اسکول ٹیچر بانُک زرینہ مری کو اغوا کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ڈیرہ بگٹی کاہان ،مشکے،آواران سمیت دیگر علاقوں میں دوران آپریشن سیکیورٹی فورسز کی فضائی اور زمینی حملوں سے سینکڑوں بلوچ خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں جبکہ دوران آپریشن خواتین اور بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔