بلوچ جہدکار اور حکمت عملیوں کا فُقدان
تحریر: بہادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان بلوچوں کے لیے قابض ریاست نے جہنم بنادیا ہے جہاں صرف بلوچ ہی جٙل رہا ہے اور ایسا گھر دیکھنے کو نہیں ملتا جو جٙل کر خاکسر نہ ہوا ہو۔ ناصرف انسان بلوچستان میں ریاستی جبر کا شکار ہیں، بلکہ جنگل اور جنگلی حیات بھی محفوظ نہیں رہے، کیونکہ ریاست نہ صرف بلوچوں کا قتل عام کررہا ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں کو بھی نہیں بخشتا ہے، قبضہ گیر درندگی کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔
بلوچ یہاں صدیوں سے رہتے آرہے ہیں، جہاں بلوچوں کی نہ زندگی محفوظ ہے نہ اسکے جانور اور نہ ہی اسکی مقدس جگہیں، قبضہ گیر بلوچستان میں اپنی نوآبادیاتی نظام پھیلا رہا ہے، اور پورے بلوچستان کی قدرتی وسائل پر قابض ہے اور ریاست کی خواہش ہے کہ بلوچ بلوچستان میں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔
قبضہ گیر کی درندہ صفت پالیسیوں کی وجہ سے ہر شعور یافتہ بلوچ نے اپنے لئے قلم کے ساتھ ساتھ بندوق کو بھی اپنا آخری سہارا بنا چکا ہے۔
اس ریاستی ظلم و جبر کے خلاف جس نے بھی آواز اٹھائی ہے اور پرامن طریقے کو اپنایا اسکی مسخ شدہ لاشیں گرادی گئی یا آج تک وہ ریاستی ٹارچر سلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں زاکر مجید، شبیر ،زاہد سمیت متعدد افراد لاپتہ ہیں۔ بلوچوں کو اب اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے جہاں ہاتھوں میں قلم کے بجائے ہتھیار ہی کو اپنے لیے واحد و محفوظ سہارہ سمجھتے ہیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے، بلوچ قومی شناخت اور بقا کے خاطر آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سرمچار ریاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
آج بلوچ جہدکاروں کو جتنی کامیابی ملی ہے اُسی طرح بہت سے نقصانات کا بھی سامنا رہا ہے اس کے باوجود جنگی حکمت عملیوں کی کمی اور کوتاہیوں کی وجہ سے بلوچ جہدکار شہید ہوتے جارہے ہیں، جو بلوچستان کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن ان وجوہات کے اوپر ایسے اقدامات لانے کی ضرورت ہے کہ میدان جنگ میں دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے اور بلوچ سرمچاروں کو کم سے کم نقصانات کا سامنا کرنا پڑے تاکہ بلوچ سرمچار اپنے لیے بہترین جنگی تیکنیک اور گوریلہ طریقوں کا استعمال کرکے ریاست کو شکست فاش دے سکیں۔
حالیہ ایک دو سالوں میں بلوچ سرمچاروں کو اپنی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور دشمن کو بےتحاشہ نقصانات دے کر بہترین جنگی حکمت عملیوں کا نام رقم کردیا لیکن دوسری طرف بلوچ جہدکاروں کو کافی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے جہاں بہت سے بلوچ تنظیم کے جہدکار ریاستی ڈرون حملوں اور سست حکمت عملیوں کی وجہ سے بےتحاشا قیمتی دوستوں کا جان کھونا پڑرہا ہے، جہاں ایک ڈرون حملے میں دس کے قریب ساتھی شہید ہوئے ایک اور حملے میں بارہ کے قریب ساتھی وطن کےلیے قربان ہوئے اور آج مند میں ایک حملے میں آٹھ سرمچار نمیران ہوئے جو بلوچ تحریک کے لیے ناقابل تلافی نقصانات ہیں کیونکہ جنگ میں قربانیاں لازمی ہوتی ہیں لیکن اس طرح کے نقصانات کو ذہنی مہارت اور گوریلہ تیکنیک کی بدولت کافی کم کیا جاسکتا ہے۔
بلوچ سرمچاروں کے مقابلے میں قبضہ گیر کے پاس بے تحاشہ جنگی سامان موجود ہے لیکن بلوچ جہدکار گوریلہ وار فیئر کے طریقوں کا بھرپور استعمال کرکے بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں جو دنیا میں جتنی گوریلہ جنگیں ہوئی ہیں بڑے سے بڑے ممالک کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں امریکہ کو ویتنام میں اور فرانس کو الجیریا میں۔
بہترین حکمت عملیوں سے مراد ہروقت ریاستی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ فوج جان بوجھ کر پہاڑوں کے نزدیک پہلے سے منصوبہ ساز چالوں سے گشت پر معمور ہوتا رہتا ہے تاکہ نزدیکی پہاڑوں پر بلوچ سرمچار کو میدان میں لاکر گن شپ ہیلی یا ڈرون کی مدد سے ختم کیا جاسکے دوسری طرف فوج بلوچ جہدکاروں کے اندر کچھ آستیں کے سانپ پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کچھ وقت قبل دو بلوچ سرمچاروں کو جس میں ماما بگٹی نامی سرمچار کے ساتھ بزدلانہ طریقے سے انہی آستیں کے سانپوں نے شہید کردیا اسی طرح پچھلے واقعات میں ایک آستیں کے سانپ کو چِپ دے دیاگیا، اُسی چِپ کے ذریعے بہت سے سینئر دوست ڈرون حملوں کی وجہ سے شہید ہوئے تھے جو بلوچ تنظیموں کو بےتحاشا نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور انکا خلا پُرکرنے کے لیے بہت وقت لگتا ہے۔
گوریلہ جنگی تیکنیک کے اوپر ہر سرمچار کو نہ صرف جسمانی طور پر تیار ہونا چاہیے بلکہ دماغی طور پر ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ دشمن کی ہر چالوں کا پتہ لگاسکے اور تنظیم کے اندر ایک مضبوط چین ہونا چاہیے تاکہ اپنے دشمنوں کو کہاں اور کس وقت مارنا چاہیے جہاں بلوچ سرمچاروں کے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہو۔
ہروقت بہتر سے بہتر روابط ہونا چاہیے. ڈرون حملوں سے بچنے کے لیے ایک ہی جگہ پر مشتمل ہونا نقصانات کا باعث بنتا ہے تو ایسے حملوں سے بچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے گروپس میں تقسیم ہونا چاہیے۔ موٹر ساہیکل گشت کے دوران ٹائر کے ہوا کو ہروقت دیکھنا چاہیے اور ساتھ ساتھ اپنے ساتھ پمپ جیسی سہولیات پاس رکھنا چاہیے۔ دوران گشت کچھ کچھ فاصلہ ہونا چاہیے تاکہ ریاستی گھات جیسے حملوں کے نقصانات سے بچاجاسکے۔
اپنے شہری ساتھیوں سے کافی احتیاط برتنا چاہیے اسکی ہرنقل حرکت پر نگرانی رکھنا چاہیے تاکہ وہ فوجی آلہ کار نہ بن سکے۔ اسکے بعد کسی بھی موباہل یا ڈیوائس کا استعمال اچھے طریقے سے کرنا چاہیے کیونکہ ریاست کی تمام نٹورکنگ کا ایک فورس اس کام پہ لگ گیا ہے تاکہ بلوچوں کی نقل حرکت کو نٹورکنگ سے پتا لگایا جاسکے کہ وہ کس لوکیشن سے بات کررہے ہوتے ہیں۔ تو ایسی حکمت عملیوں کا استعمال نہ صرف بلوچوں کی جنگی حکمت عملیوں اور روابط کو مضبوط کرتا ہے بلکہ بلوچ سرمچاروں کے نقصانات بھی بہت کم ہونگے۔
ہمارا ایمان ہے کہ ہماری جنگیں آنے والی نسلوں کی ہر قسم کی جنگ سے محفوظ بنانے کیلئے ہیں اس لئے ہم ہر حال میں سرخرو رہیں گے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں