بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ سی۔ٹی۔ڈی نے کوئٹہ میں کارروائی کرتے ہوئے ماہل بلوچ نامی ایک خاتون کو خود کش بمبار ٹھہرا کر کل رات اس کو اس کے بچوں سمیت جبری طور پر گمشدہ کیا ہے۔ بلوچ قوم اگر 2005 میں زرینہ مری کے جبری گمشدگی پر خاموش نہ ہوتی تو کل ایک رشیدہ اور آج ماہل جیسی ہماری مائیں بہنیں، بلوچ قوم کے ننگ و ناموس جبری طور پر لاپتہ نہ ہوتے۔ یہ وہی خاموشی ہے کہ آج 18 سال گزرنے کے بعد بھی زرینہ مری لاپتہ ہے۔ یہ وہی خاموشی ہے کہ جس کے سبب آئے دن ہماری ماؤں بہنوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جا رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بلوچ عورتیں بھی محفوظ نہیں، ایک بیوہ جسکی زندگی کا مقصد اپنے ان دونوں بچوں کو پڑھانا تھا، اسی لئے وہ تربت سے کوئٹہ آئی کہ یہاں اپنے بچوں کو اچھا تعلیم دے سکے، مگر کل رات سیکیورٹی فورسز نے اسے بچوں کیساتھ جبری طور پر گمشدہ کردیا۔ ہماری ماؤں بہنوں کو خودکش بمبار ٹھہرا کر ان کو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا ہے اور چادر و چار دیواری کی پامالی کی جاتی ہے اور جب ہم بطور مزاحمت روڈوں اور پریس کلبوں کا رخ کرتے ہیں تو ہمیں ملک گدار ٹھہرا جاتا ہے جب ہماری ماؤں بہنوں کو رات کے اندھیرے میں بچوں سمیت جبراً لاپتہ کیا جائے تو اگر ہم اس پر احتجاج و مزاحمت نہ کریں تو کیا کریں۔ ہماری مائیں، بہنیں ہمارے عزت و ننگ ہیں اور یوں ان کو جبراً لاپتہ کرنا اور بلوچ روایات کو تار تار کرنے کو ہم کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کر سکتے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ سیکیورٹی ادارے اپنے آئین و قانون کی پاسداری کریں اور بلا جواز ہماری ماؤں،بہنوں کو لاپتہ کرنا بند کریں وگرنہ ہم روڈوں پر اور پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کا آئینی و قانونی حق رکھتے ہیں۔ ہم حکومتِ وقت اور حکامِ بالا اور سیکیورٹی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے روایات اور ہمارے عزت و آبرو پر ہاتھ اٹھانا بند کرے اور ہوش کے ناخن لے وگرنہ ہم احتجاجی مظاہروں و دھرنوں کا آئینی حق رکھتے ہیں۔ اگر ماہل بلوچ پر لگائے گئے تمام بے مقصد و بے بنیاد الزامات واپس نہ لئے گئے اور ماہل بلوچ کو اس کے بچوں سمیت صحیح سلامت نہ چھوڑا گیا اور آئندہ وقت میں چادر و چار دیواری کی پامالی کی گئی تو ہم اس کے خلاف سخت مزاحمت کا حق رکھتے ہیں اور ہم اس کے خلاف سخت مزاحمت کا اعلان کرتے ہیں۔