بلوچستان،شاری اور چھبیس اپریل
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چھبیس اپریل بلوچ تاریخ میں ایک منفرد اہمیت کا حامل دن ہے کیونکہ اس دن کو شاری بلوچ نے اپنی قربانی سے نہ صرف منفرد مقام پایا بلکہ شاری کی قربانی نے بلوچ قومی تحریک کو ایک نیا رخ عطا کیا.
اس مضمون میں ہم جاننے کی کوشش کرینگے کہ مابعد شاری بلوچستان کی تحریک آزادی پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوئے اور ریاست پاکستان اور چین کو اس حملے نے کتنا خوفزدہ کردیا ہے،ہم کچھ خواتین کا بھی ذکر کریں گے جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں قربانیاں دی تاکہ پتہ چل جائے کہ دنیا کی تحریکوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا کردار کتنی اہمیت کا حامل ہے.
تحریک آزادی اور خواتین کا کردار
آزادی کی تحریکوں اور ریاست کی سلامتی کے لئے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے،خواتین کے کردار کے بغیر کسی بھی تحریک پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ خواتین کسی بھی ریاست کی آبادی کا نصف حصہ ہوتی ہے اور نصف حصے کی تحریک سے دوری سوائے ناکامی کے اور کسی نتیجے کو برآمد نہیں کرسکتی.
تحریک آزادی ہو یا ریاستی کی امن و سلامتی میں کردار خواتین نے وہ کردار ادا کئے ہیں جو تاریخ کے درخشاں باب ہیں۔ شاید آپ نے مستقل مزاج اور ہوائی جہاز چلانے کی ماہر رتھی مرچر کا نام سنا ہوگا جس نے شوہر کی وفات کے بعد اپنے ملک کے لئے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک جاسوسہ کا کردار ادا کیا تھا اور اپنے ملک کی عزت و آبرو کے لئے نہ صرف خطرات کا سامنا کیا بلکہ اپنی انفرادی عزت کو داو پر لگا کر دشمن کے راز نکالنے میں کامیاب ہوئی.
کرد تحریک ہو یا ویتنام تحریک ہر جگہ خواتین کا کردار ان کے عمل کا ثبوت فراہم کررہا ہے.کم ال سنگ کی سربراہی میں کوریا کی آزادی کے لئےجدوجہد کرنے والی مسلح خواتین کم جونگ سوک کا نام سنا ہوگا جس نے انقلاب کے لئے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا ان کے متعلق کم میونگ ہوا کہتی ہے کہ اپنے انقلابی فرائض کو ہمیشہ انتہائی لگن اور قابل ستائش انداز میں پورا کرتی تھی خواہ وہ کیسی مشکل اور کھٹن کیوں نہ ہوتے ،ایک مرتبہ کا ذکر ہے جب وہ گوریلا اڈے میں بطور باورچن کام کیا کرتی تھی ،ایک دن وہ دلیے کے ابلتے برتن میں کھمبیاں ڈال رہی تھی کہ دشمن نے حملہ کردیا وہ جانتی تھی کہ اگر دلیہ ضائع ہوا تو سپاہی بھوکے رہیں گے اس لئے اس نے گرم برتن اٹھایا اور دشمن کے گولیوں کی پرواہ کئے بغیر پہاڑی کی چوٹی پر پہنچی تو اسکے سر کے آدھے سے بال جل کر آبلہ بن چکے تھے لیکن اس نے تکلیف کو نظر انداز کرکے سپاہیوں میں دلیہ تقسیم کرنا شروع کردیا.اس کے اس عمل نے سپاہیوں کو اتنا متاثر کیا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے دشمن کو کچلنے کے عہد اور عزم کو اور بھی پختہ کردیا.
ایسی کئی مثالیں بانڑی ،بانک کریمہ کی شکل میں بلوچ سماج میں موجود ہیں، جنہوں نے تحریک آزادی اور ریاستی قبضے گیروں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوے ایک تاریخ رقم کی.
پاکستان اور چین میں افراتفری اور خوف
شہید شاری بلوچ کے فدائی حملے کے بعد پاکستان اور چین کے حلقوں میں ایک بے چینی ،افراتفری اور خوف نے جنم لیاہے ،ریاست پاکستان نے بلوچ علاقوں میں سرچ آپریشن کرکے سینکڑوں لوگوں کو لاپتہ کیا اور دو خواتین کو حراست میں لے کر انہیں خود کش حملہ آور ظاہر کیا جو ان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے کہ انہیں اب ہر بلوچ خواتین میں شاری کا عکس نظر آنے لگا ہے. حال ہی میں پاکستان آرمی نے کوئٹہ سے رشیدہ زہری اور ماحل بلوچ کو بچوں سمیت جبری گمشدہ کیا،ماحل بلوچ کو انہوں نے بی ایل ایف سے منسلک کرکے ایک فدائی حملہ آور قرار دیا ہے جو نفسیاتی طور پر پاکستانی شکست کا ثبوت ہے.
اگر چین کی بات کی جائے تو چین نے اپنے شہریوں کو پاکستان سے نکال دیا ہے اور موجودہ وقت میں چین کا کوئی بھی سفیر پاکستان میں موجود نہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مابعد شاری چین کی حکومت کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں پر بھروسہ نہیں اس لئے وہ اپنے سفیروں اور شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہے جو سی پیک کو ناکام بنانے میں بلوچ قومی جہد کاروں کی قربانیوں کا ثبوت ہے.
مابعد شاری اور بلوچستان
مابعد شاری بلوچ قومی تحریک نے نہ صرف پاکستان کو خوفزدہ کردیا ہے بلکہ قومی تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے،شہید شاری بلوچ کے فدائی عمل نے بلوچ قوم کے نوجوان مرد اور عورتوں کو شدید متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں ایکٹیوسٹوں نے انہیں لیجنڈ کا خطاب دیا ہے اور اس عمل کے بعد بلوچ خواتین اور جوانوں کی کثیر تعداد بلوچ قومی تحریک سے منسلک ہورہے ہیں .شاری نے ایک سوچ کو پروان چڑھایا کہ ہماری قربانی سے بلوچستان آزاد نہ ہو لیکن ہمارا عمل قومی تحریک آزادی کے لئے سود مند ثابت ہوگا اور آج شاری کے عمل کی بدولت بلوچستان شاری اور بانک کریمہ جیسے کرداروں کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے.
شاری کون ہے؟
شاری ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ امر رہے گی اس لئے شاری کون تھی کے بجائے شاری کون ہے تحریر کیا ہے.
شاری بنت حیات بلوچ ضلع کیچ کے علاقے تربت میں تین جنوری 1991 کو پیدا ہوئی ،بہن بھائیوں میں شاری کا نمبر پانچواں تھا. شاری بلوچ نے اپنی ابتدائی تعلیم آبائی علاقے تربت سے حاصل کی،انٹر سائنس کی تعلیم بھی تربت سے حاصل جبکہ گریجویٹ بلوچستان یونیورسٹی سے ایم ایس زولوجی میں کیا.تربت میں واقع علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے شاری بلوچ نے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کرکے آبائی علاقے تربت میں درس و تدریس کے شعبے سے خود کو منسلک کیا ،شاری کا ارادہ کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کا تھا.
شاری بلوچ کا خاندان ایک تعلیم یافتہ خاندانوں میں شمار ہوتا ہے.ان کے والد سرکاری ملازم تھے جبکہ بھائی اور بہن بھی سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے تھے.غنی پرواز اور صدیق آزاد جیسے ادیب اور سیاسی و انسانی خیالات رکھنے والے لوگ تھے.
بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ریاستی دہشتگردی کی وجہ سے عوام ایک انسانی المیہ کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایک تحریک آزادی جاری ہے،تحریک آزادی کی جڑیں سماج میں پیوست ہے اس لے بلوچ سماج سے منسلک افراد اس ریڈیکل رویے سے ضرور متاثر ہوتے ہیں اس لے شاری بلوچ بھی متاثر ہوئی اور بلوچستان کی متحرک طالب علم تنظیم بی ایس او کو جوائن کیا.شاری بلوچ نے یکم مئی دو ہزار چودہ کو ڈاکٹر ہیبتان بشیر سے شادی کی جن سے ان کے دو بچے ماہ روش اور میر حسن ہیں۔
چھبیس اپریل دو ہزار بائیس کو تاریخ رقم کرنے والی شاری بلوچ نے دو ہزار بیس میں بلوچ لبریشن آرمی کی فدائین اسکواڈ مجید بریگیڈ کو جوائن کیا اور بلوچ قومی تاریخ میں پہلی بلوچ خواتین کا اعزاز حاصل کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ غلامی ایک لعنت ہے اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کے لئے بلوچ خواتین وہ کردار ادا کرسکتی ہے جو ایک جوان مرد ادا کرسکتا ہے.
چھبیس اپریل کو کیا ہوا
چھبیس اپریل کی دو پہر ڈھائی بجےکو ایک ناقابل فراموش کارنامہ سر انجام دیا گیا ،یہ کارنامہ پہلی بلوچ فدائی خاتون شہید شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی کے اندر واقع چینی زبان و ثقافت کے ادارے کنفیونش انسٹیٹیوٹ کے اساتذہ کے وین کو نشانہ بنایا جس میں سیکورٹی گارڈ اور استحصالی چین کے اساتذہ ہلاک ہوئے.اس حملے کے کچھ لمحے بعد بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جئیند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مجید بریگیڈ کراچی میں چینیوں پر فدائی حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔
ترجمان کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے پہلی بلوچ خاتون فدائی شاری بلوچ عرف برمش نے یہ کاروائی سر انجام دیکر بلوچ مزاحمت میں ایک نئی تاریخ رقم کردی
اس حملے کے بعد بلوچ لبریشن آرمی نے آفیشل پیج ہکل پر شہید شاری بلوچ کی ایک ویڈیو بھی شائع کی جس میں وہ بلوچ خواتین کو جدوجہد آزادی میں شامل ہونے کی تلقین کررہی ہے.
چھبیس اپریل کے حملے نے پاکستان میں ایک کھلبلی مچادی اور کراچی کے تمام بلوچ آبادیوں پر دھاوا بول کر سینکڑوں لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا.
بلوچ نوجوانوں اور خواتین کا موجودہ دور میں کردار
شہید شاری اور بانک کریمہ نے اپنی بساط کے مطابق قومی تحریک میں کردار ادا کرکے نئی تاریخ کو جنم دیا کیا اب موجودہ دور میں بلوچ نوجوان اور خواتین اس کردار کو ادا کرکے خود کو تاریخ کا حصہ بنانے کے لئے تیار ہے؟
اگر ہاں تو ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قومی تحریک آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں اور پارٹیوں اور مسلح تنظیموں کا حصہ بن کر قومی آزادی کو مضبوط بنائیں کیونکہ قومی آزادی کی مضبوطی آپ کی شرکت کے بغیر ناممکن ہے اس لئے ذاتی زندگی کے خول سے نکل کر اجتماعی بنیادوں پر کردار ادا کرکے شاری کی قربانی کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں.
اختتامیہ
شاری بلوچ جسے دنیا کی تمام عیش و عشرت کا سامان حاصل تھا ،جو چاہتی تو اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار سکتی لیکن اس نے قربانی کے راستے کا چناو کرکے ثابت کیا کہ انفرادی ترقی کی کوئی حیثیت نہیں جب قوم غلامی کی زنجیروں میں جھکڑئی ہوئی ہو اور قوم کے فرزند اور دختر پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہو،مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہو اور قوم کے سرمچار فدائی بن کر دشمن کے کیمپوں میں افراتفری پھیلا رہے ہیں.
یہ دور شاری کا دور ہے جو بلوچستان کی آزادی تک جاری رہے گا اور ہم خوش قسمت نسل ہے کہ دور شاری میں زندہ ہے اور دشمن کی آنکھوں میں وہ خوف دیکھ رہے ہیں جو وہ ہماری آنکھوں میں دیکھنا چاہتا ہے ،اب ہم پر منحصر ہے کہ دور شاری میں شاری بن کر امر رہنا ہے یا خراب خرگوش میں غرق ہو کر ہمیشہ کے لئے غلامی کو قبول کرنا ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں