بابا جان سے ملاقات
تحریر: میرک ضیاء
دی بلوچستان پوسٹ
وقت بھی عجب شئے ہے، جب ہم چاہتے ہیں کہ رُک جائے تو ایسے تیزی سے گزرتا ہے کہ پلک جھپکتے ہی سال گزر جاتا ہے، جب ہم چاہتے ہیں کہ جلدی سے یہ وقت گزر جائے تو ایک لمحہ صدیوں جیسا ہوتا ہے. آج سے دس سال پہلے میری زندگی میں بھی اسی طرح کا ایک لمحہ آیا جب میری ملاقات بابا جان (شہید دلجان ٹک تیر) سے صرف تیس منٹ کی ملاقات ہوئی، جب ہم بابا جان کی مقررہ جگہ پر پہنچے تو بابا جان کو ہمارے لیے منتظر پایا تھوڑی دیر حال احوال کے بعد بابا جان نے ہمیں غلامی سے نجات اور قومی آزادی کیلئے دشمن سے گوریلا جنگ لڑنے اور ہمیں اپنی زمہداریوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور پھر ہمیں بندوق چلانے کی پوزیشنیں بتائیں کہ کسطرح بندوق چلاتے ہیں اس مختصر مگر ہمارے لیے زندگی کی سب سے اہم ملاقات کی اختتام پر بابا جان اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا. وہ تیس منٹ ملاقات کا ہر لمحہ آج بھی میرے زہن میں ایسا ہی محفوظ ہے جیسے کچھ دیر پہلے یہ ملاقات ہوئی ہو.
پانچ سال بعد پھر بابا جان نے ہمیں شاہموز(زہری میں ایک پہاڑی کا نام) پہنچنے کو کہا ہم نو گھنٹے کا سفر طے کرکے شاہموز پہنچ گئے دس منٹ انتظار کے بعد ایک شخص ہماری طرف مسکرا کر آرہا تھا جب نزدیک پہنچا تو آواز دی “سنگت آک ارانگ اُرے” جب بابا جان ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا تو معذرت کی اور کہا “تکلیف کرین نُمے” اس پر دوسرے سنگت نے کہا کہ نہیں سنگت یہ تو ہماری زمہداری ہے پھر باباجان اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی قومی زمہداریوں میں مصروف ہوئے اور دوستوں کو مختلف شہری اور دوسرے کاموں کی زمہداری دے کر واپس ہم سے رخصت ہوئے۔
وقت گزرتا گیا دو سال کیسے بیت گئے پتہ ہی نہیں چلا. مجھے کم عمری کی وجہ سے بابا جان نے انتظار کرنے کو کہا جب دو سال بعد سولہ فروری 2018 کو بابا جان نے واپس ملاقات کیلئے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ بس چند دن میں ہماری ملاقات ہوگی. کیا پتہ تھا کہ اس بار یہ ملاقات کبھی نہیں ہوگی اور قسمت اس ملاقات کیلئے ساتھ نہیں دے گی.
اُنیس فروری کو دشمن نے بابا جان اور اس کے دوستوں کو گھیرے میں لیا اور دشمن کے ساتھ جنگ شروع ہوئی اس جنگ میں بابا جان اور بارگ جان نے دشمن سے لڑتے رہے جب ان کی گولیاں ختم ہوئے تو اپنے بندوق کی گولی سے شہادت کی عظیم رتبے پر فائز ہوئے اور ایک تاریخ رقم کی دشمن بھی یہ دیکھ حیران ہوا ہوگا کہ مادر وطن بلوچستان کے فرزند اپنے سرزمین کی آزادی کیلئے اور اس کارواں کو آگے بڑھانے کیلئے اپنی ہی گولی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے.
اس کے بعد میری امیدیں ٹوٹ گئیں اور ہر روز اپنی امیدوں کو ٹوٹتے دیکھتا اس دوران میری ملاقات 22 اکتوبر کو شاویز سے ہوئی شاویز کے چہرے پر وہی مسکراہٹ دیکھا جسے بابا جان کے چہرے پر دیکھا تھا شاویز نے ہمیں قومی جہد میں زمہداریوں کے بارے میں سمجھایا اور ہمیں اس بارے میں بتایا کہ آپ کے بابا جان کا کارواں کبھی نہیں رکے گا آپ کے بابا جان نے جس طرح اس علاقے میں محنت اور لگن سے قومی جہد کو آگے بڑھایا ہے یہ کبھی نہیں رکے گا. دلجان آج بھی ان پہاڑوں میں موجود ہے آج بھی اس کارواں میں شامل ہماری رہنمائی کررہا ہے.
شاویز کی شہادت کے بعد نوجوانوں کی قومی جہد میں تیزی سے شامل ہونا اور قومی جہد کو آگے بڑھانا ہی شاویز ، دلجان اور امتیاز جیسے دوستوں کی محنت ہے دلجان، امتیاز نے جس محنت سے جہد کو آگے بڑھایا آج انہی کی محنت اور قربانی کی بدولت زہری جیسے علاقوں جہاں قبائلی سرداروں کی سرکار کی دربار میں حاضری کے باوجود نوجوانوں کو ایک راستہ دکھایا اور دلجان اور امتیاز کے بعد نوجوانوں کی قومی جہد میں شمولیت ہی دشمن اور اس کے حواریوں کا خاتمہ ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں