انسانی حقوق و سیاسی رہنماوں کی حفیظ زہری کے گمشدگی کے کوشش کی مذمت

281

کراچی میں گذشتہ روز کراچی سنٹرل جیل کے باہر رہائی کے بعد حفیظ بلوچ کی ایک بار پھر جبری گمشدگی کی کوشش اور اسکو اہلخانہ سمیت زخمی کرنے کے منظر کی فوٹیج سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہونے کے بعد انسانی حقوق کے اداروں سمیت سیاسی کارکن اس واقعہ کی شدید مذمت کررہے ہیں۔

ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عبدالحفیظ زہری، جنہیں جبری لاپتہ کیا گیا تھا اور بعد ازاں 2022 میں دبئی میں گرفتار کیا گیا تھا، اور پھر بعد میں دبئی سے نکال کر پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔ جس کے بعد وہ اپنے اُوپر لگے تمام الزامات سے بےقصور ثابت ہوئے۔

انہوں مزید کہا ہے کہ ایچ آر سی پی کو یہ جان کر شدید تشویش ہے کہ گزشتہ روز کراچی سینٹرل جیل سے نکلتے وقت نامعلوم مسلح افراد نے انہیں دوسری مرتبہ اغواء کرنے کی کوشش کی۔ اس حملے میں ان کے خاندان کے افراد زخمی ہوئے۔ حملے میں ملوث افراد کا محاسبہ ہونا چاہیے۔

اس واقعہ کے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر لکھا انسانی حقوق کے کارکن حفیظ بلوچ کو عدالت نے رہا کردیا۔ جیل سے باہر آتے ہی اغواء کاروں نے دوبارہ اغواء کی کوشش کی، بہن پر تشدد کیا۔ اب یہ دعویٰ کیا جائے گا کہ ‘نامعلوم’ حملہ آوروں کا سراغ لگایا جا رہا ہے جکہ ہم نامعلوم کو جانتے ہیں۔

دوسری جانب فرحت اللہ بابر پہ سوشل میڈیا میں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اس کے ٹویٹ پہ صحافی وینگس نے لکھا کہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا احتساب کرے۔ کیا وہ ایکشن لیں گے؟

ایڈوکیٹ شفیع احمد نامی صارف نے فرحت اللہ بابر سے کہا کہ جناب آپ کی جماعت سندھ میں برسراقتدار ہے، آپ وفاقی حکومت میں فوج کی سرپرستی میں بننے والے اتحاد کا حصہ ہیں، اس لیے ایک بار ان کا نام لے کر ان سے پوچھیں کہ کیا ہو رہا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے لکھا “ہم امن چاہتے ہیں لیکن ریاست امن نہیں چاہتی۔” جبکہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے حفیظ زہری کی خون سے لت پت قمیص کی تصویر شئر کرتے ہوئے لکھا “پاکستانی قوانین بلوچ کیلئے اس خون آلود قمیض کی مانند ہے، جسے محض ثبوت کیلئے سنبھالا جاتا ہے۔ ایک ہی خاندان کے درجنوں شہید، باہر ممالک سے جبری لاپتا کرنا، جھوٹے کیسز لگاکر بند کرنا اور پھر عدالت سے بری ہونے کے بعد دوبارہ لاپتا کرنے اور جان سے مارنے کی کوشش کرنا، یہ بلوچستان کی کہانی ہے۔”

اسی حوالے سے بلوچ ایکٹوسٹ و بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ “ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ خدارا اس غنڈہ گردی کے خلاف بولیں، بلوچ کے حق میں نہ سہی اپنے لئے بولیں کیونکہ جبر اور ناانصافیوں پر قائم ریاست میں کسی قوم کی بھلائی نہیں۔ یہاں کمزوروں کے وسائل لوٹ کر ان پر بدترین جبر ہی کیا جاتا ہے۔

راجی بلوچ وومن نے بیان میں کہا کہ ” راجی بلوچ وومن فورم حفیظ زہری بلوچ اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ پیش آنے والے اِس شرمناک حادثے کی شدید مذمت کرتا ہے،‏ آئے دنوں سے کبھی نہ ختم ہونے والا ڈر اور خوف، جو پاکستانی محافظوں کو اپنے ملک کے بلوچ، سندھی اور پشتون عوام سے ہے ایک عجیب سا سما پھیلائے ہوئے ہیں۔”

خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی و بعدازں پاکستان کے حوالے کرنے والے عبدالحفیظ کو رہائی کے بعد پھر سے پاکستان خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اغواء کرنے کی کوشش کی ہے۔

اہلخانہ کا کہنا ہے کہ رہائی کے فوراً بعد سفید گاڑی میں سوار مسلح افراد نے سینٹرل جیل کے سامنے عبدالحفیظ زہری کو اغواء کرنے کوشش کرتے ہوئے انہیں اہلخانہ سمیت شدید تشدد کا نشانہ بناکر زخمی کردیا اور ان پر فائرنگ کھول دی تاہم اہلخانہ نے مزاحمت کرکے اغواء کو ناکام بنادیا ۔

سوشل میڈیا پہ وائرل ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے گاڑی میں سواری فورسز اہلکار و سول کپڑوں میں ملبوس اہلکار خواتین و بچوں پر شدید تشدد کررہے ہیں جبکہ ان براہ راست فائرنگ بھی کھول دیتے ہیں۔جس سے عبدالحفیظ سمیت اس اہلخانہ زخمی ہوتے ہیں۔