بلوچ طلبہ رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ لعنت ہو اس سوچ و قبائلیت پر! ایک بلوچ بچی کی لاش بیچ چوراہے پر پڑی ہےاور قبائلیت کے دعویدار اس کو چھوڑ کر جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ اس نظام میں ہے، بلوچ کوڈ کے نام پر مرنے والے آج ایک معمولی آفیسر کے سامنے اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں اگراس نظام کے خلاف جدوجہد نہیں کی تو کل کو پورا سماج بے حس ہوگا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا بیان اس وقت سامنے آیا جب کوئٹہ میں مری اتحاد نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے لاشوں کے ہمراہ جاری دھرنے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مطالبات پورے ہوچکے ہیں۔
تاہم دھرنے میں شریک نوجوانوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ دھرنا سی ٹی ڈی کے ہاتھوں لاپتہ بلوچ بیٹی ماہل کی رہائی اور دیگر قتل کیے گئے لوگوں کی شناخت تک جاری رہے گی۔
دوسری جانب سمی دین بلوچ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وہ گراناز جو مری ہوئی تصور کی جاچکی تھی آپکی آواز نے ان طاقتوں کو اتنا مجبور کیا کہ وہ گراناز کو زندہ سلامت سامنے لانے پر مجبور ہوئے لیکن ریڈ زون میں وہ تشدد زدہ لاش تاحال لاوارث پڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہل بلوچ کی دو کمسن بچیاں ابھی بھی کوئٹہ کی سڑکوں پردھرنا دئیے بیٹھی ہیں۔ آئیں! آواز اٹھا کرانہیں انصاف دیں۔