اجتماعی سزا کے شکار بلوچ خواتین
ٹی بی پی اداریہ
تین فروری کی رات کو گشکوری ٹاون کوئٹہ میں رحیم زہری،اُن کی اہلیہ رشیدہ زہری، والدہ اور بچے پاکستان فوج کے وردی میں ملبوس افراد کے ہاتھوں جبری طور پر گمشدہ کئے گئے۔ رحیم زہری کی والدہ اور بچوں کو دو دن کے بعد چھوڑ دیا گیا اور رحیم زہری کی اہلیہ رشیدہ بلوچ کو گیارہ دنوں تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ رحیم زہری تاحال مبینہ طور پر فوج کے تحویل میں ہیں۔
جبری گمشدہ رحیم زہری، تابش وسیم کے رشتہ دار ہیں۔ تابش وسیم کو اُن کے کزن لیاقت کے ہمراہ جبری گمشدہ کیا گیا تھا اور خاران میں سی ٹی ڈی نے ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں اُنہیں قتل کردیا جبکہ لیاقت تاحال جبری گمشدہ ہیں۔ زہری خاندان کے لوگ پہلے بھی جبری گمشدگی کے شکار ہوئے ہیں اور اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں۔ رحیم زہری کا خاندان یہ خدشہ ظاہر کررہا ہے کہ کہیں ریاستی ادارے رحیم زہری اور لیاقت کو بھی تابش کی طرح کسی مبینہ جعلی مقابلے میں شہید نہ کردیں۔
زہری خاندان کے بازیابی کے لئے کراچی اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا گیا اور پورے بلوچ معاشرے سے اُن کی جبری گمشدگی کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سیاسی رہنماوں کا کہنا ہے کہ اجتماعی سزا کا تسلسل بند ہونا چاہیے، پاکستان فوج بلوچ سیاسی کارکنوں کو جدوجہد سے دور رکھنے میں ناکامی کے بعد اُن کے خاندان کے افراد کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ رحیم زہری کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری تھا کہ تربت سے ڈاکٹر واحد بخش کے گھر پر فوج نے چھاپہ مارکر زمان بلوچ کو جبری طور پر گمشدہ کردیا۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف دو دہائیوں سے احتجاج ہورہا ہے۔ وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز بارہ سال سے کراچی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھا ہے، کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا اور دو سال پہلے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں سے مل کر انہیں یقین دہانی کرچکا ہیکہ اُنہیں بازیاب کیا جائے گا لیکن اِن سب کے باجود بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہورہاہے۔
دفاعی تجزیہ نگار دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج سمجھتا ہے کہ اجتماعی سزا سے لوگوں کو قومی آزادی کی تحریک سے دور رکھا جاسکتا ہے، لیکن حقائق اسکے برعکس تصویر کشی کررہے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور اجتماعی سزا سے لوگوں کی ہمدردیاں قومی آزادی کی تحریک سے وابستہ ہورہے ہیں، جس سے بلوچستان میں ریاست کے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔