اجتماعی سزا کے تسلسل میں جبری گمشدہ زہری خاندان
دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ
آصف بلوچ
تین فروری کی رات کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے پاکستانی فوج اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے رات گئے سریاب کے علاقے گیشکوری ٹاون میں ایک گھر پر چھاپہ مارکر خواتین اور بچوں سمیت پانچ افراد کو جبری گمشدہ کردیا۔
جبری گمشدہ ہونے والوں میں ضعیف العمر خاتون دو کمسن بچے اور رحیم زہری اور اسکی اہلیہ رشیدہ زہری شامل تھے، چشم دید گواہوں اور انکے پڑوسیوں کے مطابق فوجی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار جو دس سے پندرہ گاڑیوں میں سوار تھے، گھر میں گھس کر مذکورہ خواتین و بچوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
جبری گمشدگی کے شکار ضعیف العمر خاتون(رحیم زہری کی والدہ) اور بچوں کو کچھ روز بعد رہا کردیا گیا جبکہ رحیم زہری اور اُن کی اہلیہ رشیدہ تاحال (تادم تحریر ) جبری گمشدہ ہیں۔
بلوچ خاتون کی جبری گمشدگی کے خلاف قوم پرست اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے انکی جلد بازیابی کا مطالبہ کیا ہے اور قوم پرست حلقوں کی جانب سے تربت، حب اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
زہری خاندان کے ساتھ ریاستی جبر
زہری خاندان پر ریاستی جبر کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد جبری گمشدگی کے شکار ہوئے ہیں، جعلی پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں اور جبری گمشدگی کے بعد اُن کی لاشیں مسخ کرکے ویرانوں میں پھینکے گئے ہیں۔
21 جون 2021 کو پاکستان فورسز نے خضدار کے علاقے علی اسپتال کے سامنے سے اسی زہری خاندان سے تعلق رکھنے والے تابش وسیم اور لیاقت نامی دو نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد گمشدہ رکھا اور بعدازاں سترہ ماہ تک جبری گمشدگی کے بعد بلوچستان کے علاقے خاران میں سی ٹی ڈی کے ایک جعلی مقابلے میں دیگر چار افراد کے ساتھ تابش وسیم کو قتل کرکے لاشیں پھینکی گئیں، جبکہ لیاقت تاحال گمشدہ ہیں۔
تابش وسیم اور لیاقت بلوچ کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب تابش وسیم اور لیاقت، وسیم کی والد کی تیمارداری کے لئے اسپتال میں موجود تھے، تابش وسیم کے والد کو 2021 کو زہری بازار میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا تھا، جبکہ فائرنگ کرنے والوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے ان کا تعلق بھی ریاستی حمایت یافتہ مسلح گروہ سے تھا۔
زہری خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان ظہور احمد کی مسخ شدہ لاش 2017 اپریل 11 کو خضدار کے علاقے زہری گذان سے برآمد ہوئی تھی، جس کو قتل سے بارہ روز پہلے پاکستانی فورسز نے خضدار سے حراست میں لیا تھا اور بارہ روز بعد اسکی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔
اس کے علاوہ زہری خاندان سے تعلق رکھنے والا نوجوان زکریا کو بھی حراست میں لیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ اب رحیم اور اس کی اہلیہ رشیدہ کو حراست میں لینے کے بعد رکھا گیا ہے۔
بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں کے واقعات
بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں کہ جہاں خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہوں، اس سے قبل متعدد بار خواتین و بچوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
خواتین کی جبری گمشدگیوں میں نمایاں نام بلوچ خاتون زرینہ مری کی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ ایک اسکول ٹیچر تھی جو پچھلے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لاپتہ ہے، پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے ایک دفعہ انکشاف کرتے ہوئے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر لکھا تھا کہ زرینہ مری کو دو ہزار سات میں کوہلو سے لاپتہ کرنے کے بعد اسے کراچی کی حراستی مرکز میں رکھا گیا۔
اس کے علاوہ بلوچستان سے وقتا فوقتا خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں، گزشتہ سال اگست کے مہینے میں کوئٹہ سے متصل ضلع بولان کے علاقے اوچ کمان سے پاکستان فورسز نے کم و بیش تیرہ خواتین و بچوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناکر لاپتہ کردیا ہے۔ جنکی شناخت زرگل مری، حنیفہ مری، در خاتون مری، ماہسو سمالانی، گل بی بی سمالانی، سمو سمالانی، زر بخت سمالانی، بانی سمالانی، سمیدہ سمالانی، فریدہ سمالانی، راجی سمالانی اور چار سال سے لاپتہ رکھیہ سمالانی کی اہلیہ مہنا سمالی اور بیٹا کلیم سمالانی کے ناموں سے ہوئی تھی۔
اس سے قبل بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی، آواران، پنجگور، کیچ اور کراچی سے بھی فورسز کے ہاتھوں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ گذشتہ سال ضلع کیچ اور کراچی سے ایک بلوچ شاعرہ سمیت دو خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، کراچی سے جبری گمشدگی کے شکار شاعرہ کی شناخت حبیبہ پیرجان کے نام سے ہوئی تھی جبکہ ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب سے جبری گمشدگی کے شکار خاتون کی شناخت نورجان کے نام سے ہوئی تھی، دونوں واقعات کے خلاف سخت عوامی مزاحمت سامنے آئی تھیں، جہاں سی پیک روڈ کو دو مختلف مقام پر بند کرکے کئی دنوں تک دھرنا دیا گیا تھا، جس کے بعد دونوں خواتین کو منظر عام پر لایاگیا۔
گذشتہ سال ایک اور واقعہ پنجگور کے علاقے گچک کے مقام پر پیش آیا جہاں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دو خواتین اور ایک کمسن بچے سمیت چھ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ جن میں روز شاہ بی بی، شہزادی اور ان کے شیرخوار بچہ اور عبدالرحمان و عبدالحق شامل تھے۔
ہوشاب واقعہ میں خاتون کی جبری گمشدگی کے خلاف جب کوئٹہ گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا گیا تو اس دوران بلوچستان ہائی کورٹ میں خواتین کی گرفتاری و جبری گمشدگی کی درخواست دائر کردی گئی تھی جو زیر سماعت تھی اسی دوران تمام افراد بازیاب ہوگئے۔
ضلع پنجگور سے متصل علاقے رخشان میں اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ پیش آیا، جہاں چار جون 2018 کو ناگ رخشان میں فوج نے امدادی سامان کی تقسیم کے بہانے خواتین کو زبردستی آرمی کیمپ منتقل کرکے ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اُن کی عصمت دری کی گئی تھی۔ طویل عرصے تک خواتین کو کیمپ میں بند رکھا گیا تھا، جہاں ایک خاتون جنسی زیادتی کی وجہ سے حاملہ بھی ہوگئی تھی اور پھر اسے زبردستی اسقاطِ حمل پر مجبور کیا گیا تھا۔
2018 کو بلوچستان کے علاقے مشکے سے بھی 22 جولائی کو پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے تین خواتین کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا ان اغواء ہونے والوں میں ایک 55 سالہ خاتون نور ملک زوجہ اللہ بخش اور انکی دو جوانسال صاحبزادیاں 22 سالہ حسینہ زوجہ اسحاق اور 18 سالہ ثمینہ ولد اللہ بخش شامل تھیں۔
اس سے قبل اسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے نور ملک کے 10 سالہ بیٹے ضمیر ولد اللہ بخش کو فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ رکھا ہے۔ اس سے قبل بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی اہلیہ فضیلہ بلوچ کو انکی چار سالہ بیٹی پوپل کو بلوچ لبریشن آرمی کے سابق سربراہ اسلم بلوچ کی ہمشیرہ اور انکی چار بچوں، ایک کزن اور ایک بھتیجے سمیت پاکستانی خفیہ اداروں نے کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ سے اغواء کرکے لاپتہ کردیا تھا۔
اس کے علاوہ کوئٹہ میں دسمبر 2019 کو نصیر آباد سے کوئٹہ علاج کی غرض سے آنے والے خواتین و بچوں و بچوں سمیت چھ افراد کو حراست میں لیا گیا، جنکی شناخت سات سالہ امین ولد حاجی دوست علی بگٹی، ساٹھ سالہ حاجی دوست علی ولد ملوک بگٹی ، اسی سالہ فرید بگٹی، عزت خاتون بی بی بنت ملحہ بگٹی، مراد خاتوں بنت نزغو بگٹی اور مہناز بی بی بنت فرید بگٹی کے ناموں سے ہوئی تھی۔
ایسے واقعات کے مزاحمتی تحریک پہ اثرات
بلوچستان میں جاری مسلح آزادی کی تحریک اور مسلح تنظیموں کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، تجزیہ نگاروں کا ماننا ہیکہ بلوچ مسلح تنظیموں کی طاقت میں اضافے کا سبب پاکستان فوج کے اسی طرح کی ظلم و جبر کے داستانیں ہیں، ایسے المناک واقعات پیش آنے سے بلوچ نوجوان اپنے نفرت و غصے کا اظہار پرتشدد راستے کو اپناتے ہوئے مزاحمتی تنظیموں میں جوک در جوک شامل ہوتے ہیں جس کا نقصان صرف اور صرف ریاست کو ہوتا ہے اور فائدہ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کو ہوگا۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے بلوچستان کے حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں اہم کردار ریاستی پالیسیوں نے ادا کی ہے، بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے گفت و شنید کے بجائے زور آزمائی پہ زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور اس کے ردعمل میں نوجوانوں عدم تشدد کے فلسفے کے بجائے پرتشدد راستے کو اپنانے میں زیادہ ترجیح دے رہے ہیں، جنکا ماننا ہیکہ ریاست اور ریاستی پالیسیوں نے ان کے لئے کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں ہے۔
اختتامیہ
بلوچ معاشرہ خواتین کے بارے میں بہت حساسیت رکھتی ہے، حالیہ زہری خاندان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو بلوچ حلقے بلوچ حمیت اور صدیوں سے بلوچ معاشرہ میں تقدس کے حامل روایات پر براہ راست حملہ سمجھتے ہیں ، اس کے طرح کے واقعات کے نتائج ریاست کے لئے انتہائی گھمبیر ہونگے اور اِن واقعات سے بلوچ مسئلے کے تپش میں اضافہ ہوگا۔
(نوٹ: تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رشیدہ زہری بلوچ کو آج رہا کردیا گیا ہے تاہم اس خبر کی ابتک خاندانی ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے)