آواران: فورسز کا عوام پر تشدد، مظاہرے

358

بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے پیراندر کچ مسکان بازار میں پاکستانی فورسز کی عوام پر تشدد کے خلاف احتجاج، بڑی تعداد میں مرد اور خواتین نے نکل فورسز کی بلا وجہ تشدد کے خلاف نعرہ بازی کی۔

علاقہ مکینوں کے مطابق دو دن قبل نا معلوم افراد نے فورسز کی کیمپ پر حملہ کیا، حملے کے دوسرے دن صبح 7 بجے کے قریب فورسز نے پورے علاقے کا محاصرہ کرکے گھروں میں موجود خواتین، بچوں اور بزرگوں تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی افراد کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے جہاں انکو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

فورسز کی تشدد سے زخمیوں میں ایک شخص وزیر بلوچ ولد محمد کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے، جنہیں بے حوشی کی حالت میں سول ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ اس سے قبل آرمی کی جانب سے عوام کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں بہت تنگ کیا گیا ہے۔

مسکان بازار کے لوگوں کو بلامعاوضہ زور و زبردستی مزدوری کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، زرانکولی میں موجود جنگلات کے پورے درختوں کی کٹائی میں آرمی نے لوگوں سے بلامعاضہ زبردستی کام لیاہے۔

احتجاجی مظاہرے میں علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ کئی سالوں سے پاکستان آرمی نے لوگوں کا جینا حرام کیا ہے، رات 7 بجے کے بعد کرفیو نافذ کرکے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے اور لائٹ لگانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، بیماری اور ایمرجنسی کی صورت میں ہمیں انتہائی مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ رات کی تاریکی میں عوام کو کیا معلوم کہ فائرنگ کہاں سے آ رہی ہے اور کون فائرنگ کر رہا ہے، حملے کے بعد حملہ آوروں کا تعاقب کرنے کے بجائے آرمی اپنے غصے کا اظہار نہتے لوگوں پر اتارتا ہے۔

مظاہرین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، کورکمانڈر آصف غفور اور ضلعی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ عوام پر آرمی کے اہلکاروں کی جانب ناجائز تشدد کے خلاف نوٹس لیا جائے۔