بلوچ خاتون کی جبری گمشدگی پر بلوچ سیاسی و سماجی کارکنوں کا ردعمل

418

کوئٹہ سے بلوچ خاتون ماھل بلوچ کی جبری گمشدگی کیخلاف مختلف سیاسی و سماجی حلقے اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ عالمی اداروں سے بلوچ خواتین و بچوں کے جبری گمشدگی کے واقعات کے نوٹس لینے کی اپیل کررہے ہیں۔

بلوچ خاتون ماھل بلوچ کو  سیٹلائیٹ ٹاؤن نزد بلوچستان یونیورسٹی ان کے گھر سے گذشتہ رات ان کے بچوں کے ہمراہ لاپتہ کیا گیا جبکہ بعد ازاں بچوں کو رہا کردیا گیا لیکن خاتون تاحال لاپتہ ہے۔

واقعے کے حوالے سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کہا پر کہ ملک ناز، نور جان، رشیدہ زہری اور بہت سے دوسرے لوگوں کے بعد پاکستانی فوج نے ایک اور بلوچ خاتون کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات ماھل بلوچ کو کوئٹہ سے اغواء کر کے لاپتہ کر دیا گیا۔ وہ بی این ایم کے رہنما واجہ محمد حسین مرحوم کی بہو ہیں۔ بی این ایم کے چیئرمین نے تمام لوگوں سے گزارش کی ہے کہ اس بربریت کے خلاف آواز بلند کریں۔

بلوچ طالب علم رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین بدترین ریاستی جبر کے شکار ہیں۔ آئے روز بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کل رات ایک اور بلوچ خاتون ماھل بلوچ کو سی ٹی ڈی نے گھر سے جبری طور پر گمشدہ کیا ہے۔
‏یہ درندگی اور جبر کی انتہاء ہے، اس کے خلاف خاموشی ہمیں نگل لے گی۔

انہوں نے کہا کہ ماھل بلوچ اپنے دو یتیم بچیوں کا واحد سہارہ ہے ، اس کے بچیوں کے سامنے اسے پوری رات تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وہ چیختی رہی کہ اس کا گناہ و قصور کا بتایا جائے مگر ان ظالموں کو اس کے معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں آیا۔

بلوچ اسٹوڈنس ایکشن کمیٹی کے چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ بنگلہ دیش کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، غیر مسلح عوام کو جنگ میں گھسیٹا جا رہا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ماھل بلوچ کا اغواء ناقابل برداشت عمل ہے۔ بین الاقوامی ادارے کسی قوم کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ مہنگائی و دہشت گردی کے واقعات پہ عوام پوچھتی ہے کہ ریاست کہاں ہے؟ انکے لیے جواب یہ ہے کہ ریاست یہاں ہے، ریاست کے پاس بلوچ پہ ظلم ڈھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔

صبحیحہ بلوچ نے کہا کہ رشیدہ بلوچ کے بعد ماھل بلوچ کو لاپتہ کرنا  اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ریاست کے سب سے بڑا مسئلہ بلوچ شناخت ہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکٹری زید ارشاد نے کہا کہ آئین 1973 کے نگہبانوں نے ماھل بلوچ کو بچوں سمیت جبری گمشدہ کر کے بچوں کو چھوڈ دیا، مگر ماھل بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ بلوچ خواتین کو تسلسل کے ساتھ نشانہ بنا کر نفسیاتی جنگ لڑا جا رہا یے مگر انہیں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسکے نقصانات کا سامنا محض بلوچ نہیں کرےگا۔

بیرون ملک مقیم بلوچ سیاسی کارکن حکیم بلوچ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ خواتین کو جبری گمشدہ کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور انکی تذلیل کرکے اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو کمزور کیا جاسکتا ہے یا انکی کی آواز کو دبایا جاسکتا ہے تو یقیناً ریاستِ پاکستان احمقوں کی جنت میں رہتی ہے ایسے واقعات بلوچ مزاحمت میں شدت پیدا کرنے کا سبب بنے گیں۔

انسانی حقوق کے کارکن حمیدہ نور نے کہا کہ خواتین کی جبری گمشدگی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس پہ اہلیان فیمنسٹان پاکستان کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے۔

کوئٹہ سے ماھل بلوچ کی جبری گمشدگی پر بلوچستان سمیت دیگر ممالک میں مقیم سیاسی کارکن واقعے پر غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں جبکہ بلوچ وومن فورم نے واقعے کیخلاف کل کوئٹہ میں احتجاجی ریلی کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سی ٹی ڈی نے ماھل بلوچ کی گرفتاری کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ فورسز نے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن لیڈیز پارک کے قریب کاروائی کرتے ہوئے بی ایل ایف کے ایک خاتون خودکش بمبار کو گرفتار کرلیا ہے۔ سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق فورسز کی کاروائی میں خاتون خودکش بمبار سے چار کلو وزنی بارودی جیکٹ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے-

خیال رہے گذشتہ سال کیچ سے بھی ایک خاتون نور جان کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مذکورہ واقعے پر بڑے پیمانے پر احتجاج و دھرنے کے بعد فورسز نے انکی گرفتاری ظاہر کی تھی جبکہ الزامات ثابت نہ ہونے پر خاتون عدالت سے رہا ہوگئی۔