بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے رواں سال 15 جنوری کو جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے نوجوان کی بحفاظت بازیابی کے لیے لواحقین کی جانب سے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا–
عبدالخالق قمبرانی کو پاکستانی فورسز اہلکار رواں مہینے کوئٹہ سے انکے دکان سے حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے تھے جس کے بعد سے وہ منظر عام پر نہیں آسکے ہیں۔
احتجاج میں لاپتہ افراد کی لواحقین طلباء و سیاسی تنظیموں سمیت مختلف مکاتب فکر اور خواتین نے شرکت کی-
مظاہرین نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں، پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرے درج تھے–
اس موقع پر مقررین نے عبدالخالق قمبرانی سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ریاست خطرناک حد تک بلوچستان میں نوجوانوں کو پابند سلاسل کررہا ہے۔
مقررین نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب مزید تیزی کے ساتھ ایف سی، سی ٹی ڈی و خفیہ ادارواں کے ذریعے لوگوں کو لاپتہ اور بعد ازاں جعلی مقابلے میں شہید کیے جاتے ہیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
اس موقع پر لاپتہ عبدالخالق کے بہن بیبو بلوچ نے کہا کہ میرے بھائی کو بحفاظت بازیاب کیا جائے، ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے یہ ریاست ہمیں ایسے اذیت ناک زندگیوں سے گزار رہی ہے کہ جو تکلیف دہ ہے-
انہوں نے بھائی عبدالخالق سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا-