بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آج 4913 ویں دن جاری رہا۔
اس موقع پر بارکھان سے سیاسی و سماجی کارکنان ذوالفقار بلوچ، ابوبکر بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج تک ریاست پاکستان ہر وہ حربہ استعمال کررہی ہے جو کہ ایک قابض ہر وقت محکوم قوم اور مقبوضہ خطوں پر کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم پر تشدد کرکے اسے پرامن جدوجہد سے دستبردار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے آج ریاست مارو اور پھینکو والی پالیسی کو بلوچ سرزمین کی غلامی کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کررہی ہے اور اس میں روز بروز مختلف طریقوں سے شدت لاہی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی چوتھی ستون کو میڈیا کو کنٹرولڈ جمہوریت کی طرح ایک کنٹرولڈ میڈیا رکھ کر بلوچستان میں اپنے مظالم کو چھپانے اور دنیا کو گمراہ کرنے کےلئے بلوچستان میں امن کا رٹ لگارہی ہے اگر کسی کو اسکا ضمیر نہ روک سے تو اسکا حشر بلوچستان کے صحافیوں جیسا ہوگا۔
ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچوں پر ظلم تشدد و سائل کو لوٹ مار کے ساتھ بلوچ دھرتی کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے سے زہرآلود کرکے آج سرطان بیماریوں کا موجب بن گیا ہے ۔ یہاں حق کی بات کرنے والوں کو ریاستی قوتوں نے جبری اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بناکر ہزاروں کی لاش ہمیں پہنچا دی ہیں ہزاروں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوچکے ہیں ، دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانوں کی قیمتی جانوں کی ضیاع اور دنیا کی امن کو مدنظر رکھ کر اقوام متحدہ کے نام سے ایک عالمی ادارہ وجود میں لایا گیا تاکہ پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے انسانی اقدار کی مزید پامالی کو روکا جاسکے ۔ لیکن ہم بلوچوں کی آواز اپنی ہی گلی میں دم توڑتی ہے کیونکہ عرصہ دراز سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں دیکھا گیا، حالانکہ بلوچ نے مختلف طریقوں سے اپنی سرزمین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس میں جلسہ ل،جلوس، ریلیاں، مظاہرے، ہڑتالیں عالمی اداروں کے نام لیٹر سمیت تاریخ کا ایک طویل لانگ مارچ تیرہ سالہ بھوک ہڑتالی کیمپ شامل ہے۔